|

وقتِ اشاعت :   May 31 – 2024

فطرت و سماجی ارتقاء کے قوانین کے حوالے سے دو متضاد او رمخاصمانہ نظریات فلسفیوں کے افکار میں ابتدائی انسانی سماج کے بٹوارے سے ظہور پذیر ہوئے۔ آقا و غلام کی تفریق نے انسانی سوچ میں دو متضادفلسفیانہ نظریات کو جنم دیا۔ فلسفیوں کا ایک گروہ جو آنکھیں بند کرکے آقاؤں کی خدمت گزاری او ر خوشامدی و قصیدہ گوئی کے خیالات و دلیلوں کے پرچارک سے انسان کو غیر محسوس طورپر اسیر خیال بنا کر اْس کی پسماندگی، کمزوری و غلامی کوفطرت کی طرف سے عطاکردہ تصورات و خیالات کو انسانی سوچ میں منتقلی کے فرائض ادا کرنے میں مصروف کار رہا اور دوسری جانب انہی پسماندہ، کمزور اور غلام انسانی سما ج کے بطن سے ایسے خیالات نے سر اٹھائے جو آقا و غلام کی تفریق کو فطرت کی طرف سے تھونپا ہوا نہیں بلکہ اسے دولت مندوں اور مفلسوں، استحصال کرنے والوں اور استحصال کے شکار انسانوں، پیداواری قوتوں اور پیداواری تعلقات کے مابین خلیج کو اپنے سوچ و فکر کا منبع بنایا۔ اور اس زاویہ نظر کے فلسفیوں نے پسماندگی، غلامی اور استحصال سے چھٹکارا دلانے والی ارتقاء پذیر آگے بڑھنے والی سماجی قوتوں کے مفادات کو اپنے افکار میں پروان چڑھانے کا بیڑا اٹھایا۔ اور سما ج میں تبدیلی، برابری، انصاف پسندی او رانسانی دوستی کے خیالات کو فروغ دیا۔
میر یوسف عزیز مگسی سوچ و ادراک کے حوالے سے فلسفیوں کے اسی قبیل سے تعلق رکھتے تھے جو انسانی سماج میں معاشی پسماندگی، نا برابری، نا انصافی کو محنت کے استحصال کے زاویہ نظر سے دیکھتے تھے اور پھر اسی نقطہ نظر نے وقت و زمانے کے رفتا ر اورمشاہدات کے ساتھ ساتھ اْس کے دماغ میں اِنسان کی آزادی حقوق کی منصفانہ تقسیم اور انسان دوستی کے خیالات کو پروان چڑھایا اور ایک نصب العین کے تحت اپنے قبائلی روایتی سماج کو ضرورت کے مطابق بدلنے کا بیڑا اٹھایا وہ اپنے سماج کے اندر معاشی پسماندگی، نابرابری کے محسوسات کو اپنے ایک مقالہ ’’سیاست مقدم ہے یا اقتصادیات‘‘ میں سپرد قلم کرکے یوں بکھیرتے ہیں۔
’’وہ اشخاص جو دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر کھانے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں۔ کیا انگلیوں پر گنے نہیں جا سکتے؟ ہمارے دیہات کی منتشر آبادی، جن کو نہ سونے کا ڈھنگ ہے، نہ کھانے کی تمیز اور پھر سردار پرستی، بیماریوں سے بھرے ہوئے غلیظ گھروں اور سالہا سال کے پرانے کپڑوں کا، جو جراثیم کا آشیانہ بنے ہوئے ہیں کا استعمال دردناک نہیں ہے‘‘ (۱)
میر یوسف عزیز مگسی سرمایہ داروں، جاگیرداروں، اشرافیہ، رجعت پسند اور دیگر استحصالی طبقات کا پیداواری وسائل پر غلبے او رمحنت کے استحصال سے ہتھیانے والی دولت کی بندر بانٹ کے سلسلے میں آپس کی باہمی چپقلش کو یوں بیان کرتے ہیں۔
’’یہ سارے حصہ دار ہیں۔ جھگڑا صرف بانٹنے کا ہے۔ یہ سرمایہ دار ایک دوسرے کو پلیٹ فارم پر دھمکیاں دیکر اپنے لئے اچھا حصہ حاصل کرنا چاہتے ہیں‘‘(۲)
میر یوسف عزیز مگسی لندن میں قیام کے دوران سرمایہ دارانہ زندگی کا مشاہدے کے ساتھ ساتھ مطالعے میں بھی لگے رہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت پر لکھی ہوئی کارل مارکس کی تصنیف ’’The Capital‘‘کے مطالعے نے اس کے خیالات کو نکھارنے میں اہم رول ادا کیا۔ اسے سرمایہ دارانہ نظام، استحصال او رقدر زائد کے پیچیدہ کلیوں کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوا۔ میر یوسف عزیز مگسی اپنے خطے میں مزدور انجمنوں کے قیام کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے ایک خط میں محمد امین کھوسہ کو یوں رقم طراز ہوتے ہیں۔
’’غریبوں سے لوٹ کھسوٹ کی بند ش کا افسوس اور غم نہ ہو تو ہماری کانفرنس والوں کو ہے اور نہ ہی نیشنل کانگریس کو …… میں تو اس موجودہ تحریک سے مایوس ہوتا جارہا ہوں اور کوشش میں ہوں کہ بلوچستان کے اندر کوئٹہ،جھل مگسی، سبی، نوشکی اور مستونگ میں کسانوں اور مزدوروں کی ایک یونین بن جائے۔ جس کے مقاصد محاصل اور بٹائیوں کی ظالمانہ لوٹ کو معتدل درجے پر لانے کے لئے سرمایہ داروں سے اپنے حقوق حاصل کرنا اور مزدور کے لئے جن میں ریلوے کی تعمیرات کے ہر قسم کے مزدور ہوں، اْجرت کے نرخ او راوقات کام کو مناسب سطح پر لانا ہو‘‘(۲)
اسی خط میں وہ مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’کارل مارکس کی تصنیف The Capital اور ’’دنیا کے دس ہلاکت آفرین دنWorld the Shock Days Tenجو انگریزی میں ہے او رایک انگریز سیاح کے قلم کی لکھی ہوئی ہے ان کو ضرو ر دیکھیں۔
اگر چہ مجھے احساس ہے کہ آپ میں فطرتاً بغیر کسی کی تقلید کے ایک مادہ اشتراکیت کا ہے اورغریبوں، کسانوں، مزدوروں کے لئے لڑنے والا دل …… مگر ساتھ اس کے یہ چیزیں ٹھوس بنیادوں پر مادے کی تعمیر کر یں گی‘‘۔(۳)
میر یوسف عزیز مگسی اشرافیہ کے خواہشات سے بھی غافل نہیں تھے جو اپنی موروثی وراثت اور ٹاٹ باٹ کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور جو انتہائی عیاری سے کام لیتے ہیں تاکہ وہ غیر ملکی سرمایہ داروں کی جگہ لے لیں۔ اپنے اسی مکتوب میں اپنے دوست محمد امین کھوسہ کو لکھتے ہیں کہ ’’ہمیں اصلاحات کو نسل، گورنری، صوبہ کو کیا فائدہ دیں گے۔ علاوہ اس کے غیر ملکی سرمایہ داروں کی جگہ ملکی سرمایہ دار آئیں۔ 95 فیصد بلوچستان کی غریب آبادی کے لئے تو سورج تب ہوگا جب وہ اس لوٹ سے بچیں۔ خدا آپ کو اس بڑے انسانی کام کے لئے زندہ رکھے اور مصائب برداشت کرنے کی ہمت دے‘‘۔(۳)
حوالہ جات
’’زمیندار‘‘لاہور۔ ۲۳ اپریل ۱۹۳۴ء
ماہنامہ الحنیف جیکب آباد ص۔ ۴ ماہ فروری ۱۹۳۷ء۔
ڈاکٹر انعام الحق کوثر۔ مکاتیب یوسف عزیز مگسی ص۔۷۴ ماہ جون ۱۹۷۸ء