|

وقتِ اشاعت :   June 8 – 2024

ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے اگر پاکستان کی تاریخ دیکھی جائے تو ملک کی مقتدرہ آزادی کی حاصلات کو عوام تک پہنچانے کے برعکس ہر گزرتے روز کے ساتھ ملک کو اْس کیفیت سے مزید ابتری کی جانب دھکیل رہا ہے اور دورِ رواں کی نفسانفسی کو اگر عمیق نگاہی سے پرکھا جائے تو تناؤ، کہنے دیجیئے کہ ملک کو لاینحل تصادم کی جانب گھسیٹتے جا رہے ہیں۔

وہ اْلجھنیں جو آزادی کے وقت ملک کو درپیش تھیں اْن کی سْلجھاؤ پر توجہ مرکوز رکھنے کی بجائے قائدین نے کے پی کے اور سندھ کے منتخب حکومتوں کو غیر جمہوری انداز سے ہٹا کر ان کے ساتھ جو کچھ کیا، اْن اقدامات سے ووٹ ، عوامی اقتدار اور جمہوریت کے ساتھ قائدین کے عزائم کو بھانپ کر سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیئے اس کے ساتھ یہ بھی کہ پاکستان ترقی کی کس راہ پر گامزن رہ کر آگے بڑھے اِس بنیادی اور اہم ترین سوال پر ایک معقول اور قابلِ عمل حکمت عملی مرتب کر کے ان پر چلنے کے برخلاف ڈاکٹر اشتیاق احمد کے بقول ملک کے قائدین نہ صرف درپردہ سوچ رکھتے تھے بلکہ برملا اظہار کرتے تھے کہ پاکستان چونکہ امریکہ اور سوویت روس کے مفادات کی سنگھم پر واقع ہے اس لیے پاکستان اپنی جغرافیائی محل وقوع کی اہمیت سے استفادہ اْٹھا سکتا ہے ، اِس بیانیئے سے صاف ظاہر ہے کہ ملک کے قائدین دو متضاد طرز ہائے معیشت کے درمیان خدمات سرانجام دینے کے عوض کاروبارائے ہستی گزار دینا ایک مستقل پالیسی کے طور پر قائم اور دائم رکھنا چاہتے تھے اور شاید اسی وجہ سے ملک کے حکمرانوں نے کبھی منصوبہ بندی کے ساتھ کوشش ہی نہیں کی کہ پاکستان خود انحصاری اور معاشی نمو کی جانب آگے بڑھ کر ایک خودمختار اور توانا ملک بن کر اْبھرے تاکہ کشکولِ گدائی کی ذلّت اور قرضوں کے حصول کی ندامت سے جان چْھوٹے۔

اِن بے سروپا عزائم اور ناقص پالیسیوں پر عملِ پیہم کے سبب پاکستان آج بلاشبہ اْن حالات اور مشکلات سے بدتر کیفیات سے دوچار ہے جو آزادی کے وقت ملک کو درپیش تھے۔ ووٹ اور الیکشن کے نتائج غیرمتنازعہ رہے اور وہ لوگ جو انتخابات میں جیت یا ہار چکے ہیں ان کو یقین ہو کہ ووٹوں کی گنتی اور نتائج کی ترتیب میں ان کے ساتھ کسی نے ہیر پھیر یا ناجائز نہیں کی ہے بلکہ عوام نے ان کو مسترد کر دیا ہے اور اْن کے حاصل کردہ ووٹ وہی ہیں جو گِنے جا چکے ہیں اِس مقصد کے حصول کی خاطر ملک کے حکمرانوں نے ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن ترتیب دیکر اْس کو بااختیار بنانے کی کوشش نہیں کی اس کے برخلاف ابتدائی دور سے دخل اندازی اور دھاندلی کو رواج دینے کی کوشش کی گئی، ملک میں منظم اور مضبوط جمہوری پارٹیاں چونکہ وجود ہی نہیں رکھتی تھیں جو عوام میں مقبول ہوں ، ایک دو پارٹیاں اگرچہ موجود تھیں مگر اْن کے اہداف اور پالیسیوں پر زور آور مقتدرہ کے تحفظات تھے لہٰذا ملک کو چلانے کے لیے مقتدرہ کو جب سیاسی مہروں کی ضرورت پیش آئی تو اِس کمی کو پْورا کرنے کے لیے پی پی ، نواز لیگ اور ق لیگ وغیرہ کے نام پر بہت سارے پروجیکٹس بنائے گئے مگر لگتا ہے کہ ان میں سے ایک پروجیکٹ بھی عوام باالخصوص مقتدرہ کے توقعات کی تکمیل نہیں کر سکا جو متضاد مفادات کو باہم یکجاہ کر کے تاریخ رقم کرتے ہوئے متعینہ اہداف کے ساتھ ساتھ مقتدرہ ، ملک کے عوام اور ملغوبہ جمہوریت کے لیے کارگر اور سود مند ثابت ہو سکے ۔پروجیکٹ عمران خان تو مقتدرہ کے گلے کی ہڈّی کہنے دیجیئے کہ مرضِ لاعلاج بن چکی ہے، اپنی تاریخ میں ملک ہلچل سے آزاد اور سکون کے ساتھ کبھی نہیں رہا ہے مگر حالیہ انتخابات کے بعد بلکہ گزشتہ ایک عشرے سے ملک بتدریج شدید ترین معاشی جمود اور سیاسی عدم استحکام کی جانب گامزن ہے جو کم ہونے کی بجائے روز بروز مزید بڑھ رہا ہے۔ خرابیِ بسیار کے بعد ایک طرف مقتدرہ کی خواہش ہے کہ عمران خان نو مئی کی واقعات پر توبہ کر کے معافی مانگ لے جبکہ دوسری جانب سیاسی پارٹیوںمیں سے شہباز لیگ ، پی پی اور ایم کیو ایم کے علاوہ پی ٹی آئی سمیت ملک کے دیگر تمام پارٹیاں موقف رکھتی ہیں کہ ان کے ساتھ بلکہ اْن سے زیادہ ملک کے ساتھ گزشتہ 76 سالوں کے دوران چونکہ ناجائز سلوک روا رکھا گیا ہے،عوام کے ووٹوں اور جمہوریت پر بارہا شب خون مارا گیا ہے یا پھر دخل اندازیوں کے ذریعے عوام کے منتخب جمہوری حکومتوں کو چلنے نہیں دیا گیا ہے اور یہ سب کچھ چونکہ مقتدرہ کی کارستانی رہی ہے لہٰذا مقتدرہ کو چاہیئے کہ وہ ماضی کے کردار پر معافی مانگ لے اور آئندہ خود کو ملک کی سیاست سے مکمل طور پر الگ کر دے۔

مذکورہ کشیدگی کے باعث اِس وقت ملک جس صورتحال سے دوچار ہے پی ٹی آئی سمیت دیگر تمام پارٹیاں ان حالات اور واقعات کی ذمہ داری مقتدرہ پر ڈال کر تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں ، نواز لیگ اگرچہ وفاق اور پنجاب میں برسر اقتدار ہے مگر ملک کے سیاستدان مقتدرہ کی جانب سے بارہا کی دراندازیوں اور جمہوری نظام حکومت کی ملغوبیت سے اس قدر بیزار ہیں کہ نواز لیگ کے تمام نامدار قائدین اور عہدیداران بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ جنرل ایوب خان کی ہڈیوں کو قبر سے نکال کر تختہ دار پر لٹکا دینا چاہیئے جو ملک میں فوجی مارشل لاؤں کی پیشرو اور سانحہِ بنگال کا ذمہ دار ہے۔

اس وقت ملک ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ درپیش مسائل حل ہو پائیں گے یا مزید پیچیدگی اختیار کر لیں گے لیکن مسائل حل ہوں اس کے امکانات اس لیے بھی کم ہیں کہ مسائل کے حل پر نہ سیاسی پارٹیاں سنجیدہ ہیں اور نہ ہی طاقت کے خْمار میں مبتلا مقتدرہ !لگتا ہے کہ ملک تیزی کے ساتھ مزید انتشار ، مشکلات اور لاینحل پیچیدگیوں کی جانب رواں دواں ہے۔ آئی ایم ایف کے سخت شرائط، قرضوں کا بارِ گراں ، ٹیکسز کی ادائیگیوں پر ملک کے اْمراء، وزراء، زمینداروں ،کاروباری لوگوں اور مضبوط اداروں کی انکار کی وجہ سے مشکل ہے کہ ان مسائل کا حل نکل آئے اور حالات درست سمت پر گامزن ہوں۔

انہی حالات کو بھانپ کر نواز لیگ کے رانا ثنا اللہ بْغض کے ساتھ ان کے سرے کو عمران خان سے جوڑ کر کہتے ہیں کہ یہ شخص ملک کو ضرور کسی حادثے سے دوچار کر دے گا ۔ایک طرز پر دیکھا جائے تو حادثے کے آثار نمایاں ہیں باخبر رپورٹرز کو پڑھا اور سوشل میڈیا پر وی لاگرز یا محسن داوڑ کی اعزاز سید کے ساتھ گفتگو کو سْنا جائے تو اِن سب کے مطابق کے پی کے میں طالبان کی نہ صرف آمد بلکہ وزیرِ اعلیٰ ، وزراء ، افسران اور مشران سے بھتہ وصولیوں سے صاف ظاہر ہے کہ کے پی کے پر علی امین گنڈا پْور سے زیادہ اور عملاًطالبان راج کر رہے ہیں جو اِس قدر توانا ہیں کہ وزیر اعلیٰ تک سے بھتہ اور ٹیکس لینے کے ساتھ ساتھ ججز کو اغواء کر کے تاوان لے سکتے ہیں ۔

عوام کو عدل اور انصاف فراہم کرنا ججز کا فرائضِ منصبی ہے لیکن پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مْنصِف انصاف کی تلاش میں فریادی اور درخواستی ہیں جہاں منصفوں کو اغواء کیا جاتا ہے اور کروڑوں کی تاوان کے عوض چھوڑا جاتا ہے اِس تناظر میں دیکھا جائے تو گزشتہ ایک صدی کی انسانی تاریخ میں اس سے زیادہ انتشار ، عدم تحفظ ، نفسانفسی اور پراگندگی کے قِصّے افسانوں اور داستانوں میں تلاش کرنا مشکل ہے اور اس ماحول کو ابھی مزید آگے بڑھنا ہے۔ مہنگائی کے خلاف کشمیر میں پْرتشدد احتجاج کی پیروی صاف ظاہر ہے کہ ملک کے دیگر صوبوں کے عوام بھی کریں گے۔
ان حالات میں دنیا کے سرمایہ کار کیا پاگل ہیں کہ وہ پاکستان میں سرمایہ لگائیں گے جبکہ پاکستان کے مقامی سرمایہ کار سمیت تعلیم یافتہ اور ہْنرمند لوگ ، ڈاکٹرز ، انجنیئرز اور کمپیوٹر سائنسداں ملکی نظام میں موجود پیچیدگیوں ، بیکاریوں ، شورشوں اور زندگی کے تحفظ سمیت سیاسی اور معاشی ناہمواریوں سے تنگ آ کر ملک سے بھاگ رہے ہیں ۔وہ جو ایک بلوچ شاعر نے کہا ہے کہ ” شپء َ سر بِگر ” بالکل اْسی کی مانند ہر کوئی کوشاں ہے کہ دن کے اْجھالے سے بہتر یہی ہے کہ وہ رات کی تیرگی میں اس ملک سے نکل کر بھاگے تاکہ اْن کے نقشِ پا سے معلوم ہو سکے کہ وہ زندہ ، سلامت نکل کر بھاگ گیا ہے۔
ان دگرگوں حالات ، دھندلاہٹ ، عدم تحفظ اور ادارتی ٹکراؤ کی مغموم فضا میں بلوچ قیادت سے اپیل ہے کہ وہ مزید وقت ضائع کئے بغیر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ مل کر بلوچ قوم کی بقا کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر پْر امن جدوجہد کریں اور اس سچائی کو جان لیں کہ عوام میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کو ان پارٹیوں پر فوقیت حاصل ہے۔