بلوچستان میں’’پہلی انفارمیشن کمیشن‘‘ بننے جارہی ہے۔ اس کمیشن کا کام بلوچستان میں حکومتی اداروں میں شفافیت اور احتساب کے عمل کو یقینی بنانا ہے۔ لہذا اس ادارے میں تعیناتی میرٹ پر ہونا چاہیے، تاکہ اس قانون پراس کے روح کے مطابق عمل ہو اور جس مقصد خاص کے لیے سول سوسائٹی خاص کر ایک مقامی تنظیم ’’ایڈ بلوچستان‘‘نے 2015 سے اپنے ایک رضاکار پلیٹ فارم “پبلک اکاؤنٹیبلٹی” فورم پہ جدو جہد کی جسے بالآخر فروری 2021 میں بلوچستان اسمبلی نے’’معلومات تک رسائی کا قانون 2021‘‘ پاس کیا۔اس قانون کو پاس کرانے میں “پبلک اکاؤنٹیبلٹی فورم” کے ممبرز بشمول مجھ سمیت سب کو مشکلات کا سامنا رہا ، ایک طرف بلوچستان اسمبلی سے قانون پاس کرانے میں تو دوسری جانب پھر اس کے “رولز آف بزنس” بنانے تک۔ اس دوران ہمیں شدت سے محسوس ہوا کہ لوگ اداروں میں شفافیت اور احتساب نہیں چاہتے اس پر مستزاد کرپشن کے بے لگام گھوڑے کو بھی کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔
مزید براں معلومات تک رسائی کا قانون بلوچستان کے عوام کے لیے ایک انقلابی قدم ہے۔ اس قانون کے ذریعے بلوچستان کا کوئی بھی فرد ایک سادہ کاغذ پر اس قانون کا حوالہ دے کر بلوچستان کے کسی بھی ادارے سے ہر قسم کی معلومات لے سکتا ہے۔ اگر وہ ادارہ ایک مہینے کے اندر سائل کو جواب دینے میں ناکام رہا تو اگلا مرحلہ یا دروازہ ’’بلوچستان انفارمیشن کمیشن‘‘ ہے۔ سائل اپنی درخواست متعلقہ ادارے کے خلاف جمع کرسکتا ہے اور اس تناظر میں کمیشن پابند ہے کہ وہ 60 دن کے اندر سائل کی درخواست پہ انصاف کے مطلوبہ تقاضوں کو پورا کرے!
بہ نظر غائر دیکھا جائے تو بلوچستان میں ایسے عوامی ادارے بھی موجود ہیں جہاں میرٹ پہ تعیناتی عمل میں لائی گئی ایسے ادارے روز افزوں پھل پھول رہے ہیں اور ایسے ادارے بھی وجود رکھتے ہیں، جہاں دوران تعیناتی شفافیت کی دھجیاں اڑائی گئیں لہذا وہ ادارے زبوں حالی اور پستی کی تصویر بن کر ارباب اختیار کا منہ چڑا رہے ہیں۔ ایسے معتبر ادارے جہاں شفافیت کو پہلی ترجیح دی گئی، میں “بلوچستان کمیشن آف دی اسٹیٹس آف ویمن” ،”صوبائی محتسب برائے ہراسانی خواتین کا سدباب” اور “بلوچستان کمیشن آف دی اسٹیٹس آف ویمن ” ہے ۔
بلوچستان انفارمیشن کمیشن قانون کے تین سال پاس ہونے کے بعد بننے جارہا ہے اور پاکستان کے دوسرے صوبوں میں اپنے تین تین ادوار مکمل کرچکا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ بلوچستان میں تاخیر سے بننے کے باوجود میرٹ ’’پہلی انفارمیشن کمیشن‘‘ بنے گی اور اس طویل انتظار کا ازالہ کرے گی۔
بقول شاعر:
“دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے “