پاکستان میں پرنٹ میڈیا زوال پذیرہے جس کی بڑی وجہ اس صنعت کو ترجیح نہیں دینا ہے خاص کر صوبائی سطح پر شائع ہونی والی اخبارات کو میرٹ کے مطابق اشتہارات نہیں دیئے جاتے۔
ڈمی اور معیاری اخبارات کو یکساں طور پر اشتہارات دیئے جاتے ہیں جو سراسر زیادتی ہے، ایسے درجنوں ڈمی اخبارات بلوچستان سے شائع ہوتی ہیں جن میں تین سے چار افراد پر مشتمل ٹیم کام کرتی ہے
جو کہ پروفیشنل بھی نہیں ہوتے ، صرف سرکاری اشتہارات کے حصول کے لیے ان اخبارات کی چند کاپیاں پرنٹ کی جاتی ہیں،انہی ڈمی اخبارات کی وجہ سے بلوچستان کے بڑے اخبارات اشتہارات کے حصول اور واجبات کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے اخسارے میں جارہے ہیں جہاںتین تین شفٹوںمیں پروفیشنل ٹیم پر مشتمل صحافی اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ ابھی بھی بلوچستان کے مقامی بڑے اخبارات شدید مالی بحران کا شکار ہیں ایک تو اشتہارات انہیں میرٹ پر نہیں دیئے جاتے، دوسرا واجبات دیر سے ادا کی جاتی ہیں جس کے باعث بلوچستان میں اخباری صنعت بڑے مسائل کا شکار ہے۔
اس اہم نوعیت کے مسئلے پر اخبارات کے مدیران نے ماضی میں تمام صوبائی حکومتوں کے وزراء اعلیٰ اور محکمہ اطلاعات کے سامنے بھی مطالبات رکھے کہ بلوچستان سے شائع ہونے والی تمام اخبارات جو حکومتی ریکارڈ کا حصہ ہیں ان کا سروے کیا جائے کہ کتنے ایسے اخبارات ہیں جو مارکیٹ سمیت تمام اداروں کے پاس روزانہ کی بنیاد پر پہنچتے ہیں نیز آفسز کا دورہ بھی کیا جائے کہ وہاںکتنا عملہ کام کررہا ہے مگر اس اہم نوعیت کے مسئلے کو نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے ڈمی اخبارات اور جرائد میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے جو بلوچستان حکومت کے خزانے پر نہ صرف بوجھ بنے ہوئے ہیں بلکہ بلوچستان کے اہم میڈیا ہاؤسز کی حق تلفی بھی کررہے ہیں جس کی وجہ سے بڑے اخبارات اپنے عملہ کو تنخواہ تک وقت پر نہیں دے پاتے چونکہ انہیں سرکاری اشتہارات میرٹ پر نہیں دیئے جاتے اور واجبات کی ادائیگی بھی تاخیر سے کی جاتی ہے ۔موجودہ بلوچستان حکومت میڈیا لسٹ نکال کر جانچ پڑتال کرے تو سب حقائق سامنے آئینگے اس مسئلے کو حل کئے بغیر بلوچستان میں اخباری صنعت کبھی بھی ترقی نہیں کرپائے گی اور نہ ہی معیاری صحافت پروان چڑھے گی۔ ہمیشہ حکومتی نمائندگان یہ شکوہ کرتے ہیں کہ حکومت کیوں اشتہارات دے ،دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اخبارات اور جرائد اپنی آمدن خود نکال لیتے ہیں ۔ بہرحال وہاں اور یہاں کے زمینی حقائق میں بہت فرق ہے ترقی یافتہ ممالک کے حکمران اخبارات اور جرائد سے یہ تقاضہ نہیں کرتے کہ ان کے بیانیہ کو اپنے اخبارات اور جرائد کے ذریعے نمایاں کریں بلکہ ان کی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں کوریج ملتی ہے ہمارے یہاں جب لیڈ ،سپر لیڈ اسٹوری میں حکمران جماعتوں کی خبروں کو اگر نمایاں نہ کیا جائے تو دوسرے روز ہی متعلقہ محکمہ کی جانب سے شکوہ کیا جاتا ہے کہ ہم سے کس حوالے سے ناراضگی ہے ،یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے تسلیم کیا جانا چاہئے ۔جبکہ دوسرا مسئلہ بلوچستان میں یہ ہے کہ یہاں بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں موجود نہیں جو اپنے پروڈکٹس کی پرچار کیلئے اخبارات اور جرائد کو اشتہارات دیں، اگر بلوچستان میں بڑی کمپنیاں ہوتیں اور اشتہارات ان سے ملتیں تو بلوچستان کے اخبارات اور جرائد بلوچستان حکومت کے اشتہارات پرانحصار نہیں کرتیں۔ ایک المیہ تو یہ بھی ہے کہ بلوچستان کے ترقیاتی ٹینڈرز کے اشتہارات بھی ماضی میں دیگر صوبوں کے اخبارات اور جرائد کو ملتی رہی ہیں کیا یہ زیادتی نہیں ،
کیا دیگر صوبوں کے ترقیاتی کاموں کے ٹینڈرز کے اشتہارات بلوچستان کو دیئے گئے ہیں ۔افسوس تو یہ ہوتا ہے کہ ہماری صوبائی حکومت کی کوریج دیگر صوبوں کے میڈیا ہاؤسز بہت کم کرتے ہیں جبکہ بلوچستان کے مقامی اخبارات اور جرائد بلوچستان حکومت کے بیانیہ سمیت تمام چھوٹے بڑے اضلاع کی خبروں کو شہ سرخیوں میں جگہ دیتے ہیں تاکہ حکومت بلوچستان کے بہترین اقدامات اور مسائل سے عوام کو آگاہی مل سکے۔ بلوچستان کے اخبارات اور جرائد پہلے سے ہی مالی بحران کا شکار ہیں جن کی اشاعت روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔حالیہ بجٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے نیوز پرنٹ کی درآمد پر 10% جی ایس ٹی کے نفاذ کا اعلان کیاگیا ہیجو بلوچستان کے اخبارات کیلئے ایک بڑا مسئلہ بن جائے گاان پر مزید مالی بوجھ پڑے گا ۔
اے پی این ایس کی جانب سے نیوز پرنٹ کی درآمد پر 10% جی ایس ٹی کے نفاذ کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے پرنٹ میڈیا کو جی ایس ٹی سے مستثنیٰ رکھنے کی درخواست کی گئی ہے۔آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کی صدر ناز آفرین سہگل لاکھانی اور سیکرٹری جنرل سرمد علی نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ اخبار کی صنعت کی طرف سے درآمد کیے جانے والے نیوز پرنٹ پر جی ایس ٹی کا نفاذ پہلے ہی بحران زدہ پرنٹ میڈیا کی بقا کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا ، حکومت فیصلہ واپس لے۔ انہوں نے کہا کہ اخبارات میں استعمال ہونے والا نیوز پرنٹ اور دیگر مواد سب درآمد شدہ ہیں اور پاکستانی روپے کی قدر میں بے مثالکمی کی وجہ سے اخبارات کی لاگت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں اخبارات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس نے ان کی اشاعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے طویل عرصے سے واجبات کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے جس سے مالی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔اے پی این ایس کے عہدیداروں نے کہا کہ اخباری صنعت کو توقع تھی کہ طویل عرصے سے واجب الادا اشتہارات کے نرخوں میں 35% اضافے سمیت امدادی اقدامات کیے جائیں گے لیکن اس کے بجائے وزیر خزانہ کی جانب سے اعلان کردہ مالیاتی بل میں جی ایس ٹی عائد کر دیا گیا ہے۔ بہرحال وفاقی حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے واپس لینا چائیے کیونکہ اخبارات کی آمدن محدود ہے ، جی ایس ٹی کے نفاذسے اخباری صنعت کو بڑا دھچکہ لگے گا اور سب سے زیادہ متاثر بلوچستان کی اخباری صنعت ہوگی۔ صوبائی حکومت کو بھی چاہئے کہ بلوچستان کے اخباری صنعت کو مالی مشکلات سے نجات دلانے کیلئے ساتھ دے تاکہ یہ مقامی صنعت تباہ نہ ہو جائے اور ہزاروں صحافیوں کا روزگار بھی متاثر نہ ہو۔