سیاست میں قدم
بے نظیر بھٹو 1953ء میں سندھ کے ایک سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے سابق صدر اور وزیر اعظم تھے۔ بے نظیر کی ابتدائی تعلیم پاکستان اور ایران میں ہوئی جس کے بعد وہ ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا اور برطانیہ چلی گئیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ پاکستان واپس آئیں لیکن 1977ء میں جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کے دو سال بعد ان کے والد کو پھانسی دے دی گئی۔ اس سانحے نے بے نظیر بھٹو کی زندگی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
ایم آرڈی (MRD) کا قیام
1979ء میں سیاست میں قدم رکھتے ہی بے نظیر بھٹو نے اپنی والدہ نصرت بھٹو کے ساتھ مل کر “بحالی جمہوریت تحریک” (MRD) کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ ایک ایسا سیاسی اتحاد تھا جس میں پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں نے جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کے خلاف آواز بلند کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ اور سیاسی قدآور شخصیت بیگم نصرت بھٹو نے ایم آر ڈی کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کو ملک بھر میں مارشل لاء کے خلاف جلسے اور مظاہرے کرنے کی پاداش میں جیل بھی جانا پڑا لیکن وہ ثابت قدمی سے اپنے مقصد پر قائم رہیں۔ وہ جہاندیدہ خاتون تھیں اور انہوں نے اپنی بیٹی میں پوشیدہ سیاسی میدان کا گوہر نایاب پرکھ لیا تھا لہذا وہ بینظیر بھٹو کو سیاسی جدوجہد میں اپنے شانہ بشانہ رکھتی تھیں۔
MRD کی قیادت اور اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کی رہنمائی میں بے نظیر بھٹو نے مارشل لاء کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کی۔ ان کی شعلہ بیان تقریروں اور جرات مندانداز نے عوام میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑنا شروع کردئیے۔ جب 1983 میں، نصرت بھٹو کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا تو بے نظیر بھٹو نے اپنی والدہ کی رہائی کے لیے ایک مہم کی قیادت کی، اور انہوں نے بین الاقوامی برادری سے دباؤ ڈلوایا۔ آخر کار، نصرت بھٹو کو 1984 میں رہا کر دیا گیا۔
چونکہ بینظیر بھٹو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں، بیرون ممالک میں ان کے مضبوط روابط تھے، اور وہ ایک اعلیٰ منتظم بھی تھیں اور ان کی ان صلاحیتوں نے ایم آر ڈی کی تحریک کو چار چاند لگایا۔ انہوں نے بیرون ممالک سے ایم آر ڈی کی احتجاجی تحریک کے لیے حمایت حاصل کی، اور تحریک کے لیے نہ صرف ایم آر ڈی میں رضاکاروں کی بھرتی میں مدد کی بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایم آر ڈی کی تحریک کے لیے فنڈنگ کی راہ بھی ہموار کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔وہ ایم آر ڈی میں اپنی بھرپور صلاحیتوں اور جدوجہد کے باعث 1986 میں ایم آر ڈی کی نائب صدر بن گئیں۔
1988ء اور 1993ء کے انتخابات میں کامیابی
1988ء میں جنرل ضیا الحق کے طیارے کے حادثے کے بعد پاکستان میں عام انتخابات ہوئے۔ اس میں بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کر کے حکومت بنائی۔ اس طرح بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون منتخب وزیر اعظم بن گئیں۔ وہ دو بار وزیراعظم بنیں،اور دوسری بار ان کی حکومت 1993میں بنی۔ پہلے دور میں ان کی حکومت نے غربت ختم کرنے، تعلیم کے فروغ اور خواتین کے حقوق کے لیے کوششیں کیں لیکن ان کے دور میں بدعنوانی کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ ناقدین نے الزام لگایا کہ بینظیر بھٹو نے قریبی ساتھیوں کو سرکاری ٹھیکے دئیے اور عوامی فنڈز کو غلط استعمال کیا۔ یہ الزامات، اگرچہ کبھی بھی حتمی طور پر ثابت نہیں ہوئے، لیکن ا س وقت ان کی قیادت پر عوامی اعتماد مجروح ہوگیا۔
بینظیر بھٹو کو اپنے دور میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور قرضوں کی بڑھتی ہوئی سطح کا بھی سامنا رہا۔ جب کہ انہوں نے نجکاری اور معاشی ترقی کو فروغ دینے کی پالیسیوں پر عمل درآمد کیا، نتائج ملے جلے تھے۔ عوام میں بہتری کی سست رفتاری سے مایوسی بڑھ گئی۔اسی دوران بینظیر بھٹو کے اس وقت کی اسٹبلشمنٹ اور صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ تعلقات تیزی سے کشیدہ ہوتے گئے۔ مداخلت کے الزامات اور دونوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش نے سیاسی عدم استحکام پیدا کیا۔ صدر نے بالآخر 1990 میں بینظیر بھٹو کی حکومت کو تحلیل کرنے کے لیے اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں نئے انتخابات ہوئے۔
جلاوطنی
1990ء کے انتخابات میں شکست کے بعد بے نظیر بھٹو کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات چلتے رہے۔ 1993ء میں نئے انتخابات ہوئے جن میں ان کی پارٹی نے دوبارہ کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ تاہم، اس بار ان کی حکومت کو زیادہ استحکام حاصل نہ ہو سکا اور انہیں مختلف سیاسی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے شوہر آصف علی زرداری پر بھی کرپشن کے الزامات لگے۔اس بار ان کی حکومت کو تحلیل کرنے میں کسی اور نے نہیں بلکہ ان کے اپنے منتخب کردہ صدر فاروق احمد خان لغاری نے کردار ادا کیا۔
1996ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے بعدنئے انتخابات ہوئے جن میں ان کی پارٹی کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شکست کے بعد بے نظیر بھٹو خود پر لگے کرپشن کے مقدموں سے بچنے کے لیے 1999ء تک دبئی اور لندن میں خود ساختہ جلاوطنی پر چلی گئیں۔ اس دوران پاکستان میں 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔جبکہ جلاوطنی کے دوران بے نظیر بھٹو اپنی سیاسی جماعت کو منظم رکھنے کی کوششوں میں مصروف رہیں۔
بے نظیر بھٹو کی پاکستان واپسی
پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو استحکام دینے کے لیے سیاسی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے کی ٹھانی اور سیاسی رہنمائوں بالخصوص بینظیر بھٹو کو پاکستان میں سیاست کرنے کی آزادی دینے کے لیے این آر او متعارف کیا۔ ناقدین نے این آر او کوپرویز مشرف اور مبینہ کرپٹ سیاست دانوں کے درمیان ڈیل قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا لیکن اس اقدام کے بعد بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہو گئی۔ آٹھ سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد بے نظیر بھٹو کی 2007 میں پاکستان واپسی پر کراچی میں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ جہاں کئی جذباتی مناظر دیکھے گئے وہیں بینظیر بھٹو بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائیں اور انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی نم آنکھوں سے اپنے پروردگار کا شکر ادا کیا۔
کراچی ایئرپورٹ سے بلاول ہائوس تک راستے میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا جو اپنے محبوب لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اپنی زندگی بھی دائو پر لگانے کے لئے تیار تھا اور پھر وہ ہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ کارساز فلائی اوور کے قریب بینظیر کی گاڑی کے قریب زوردار خودکش دھماکا ہوا جس میں بینظیر بھٹو بال بال بچ گئیں لیکن اس حادثے میں ایک سو اسی افراداپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔وہ اگلے ہی روز زخمیوں کی عیادت کرنے اسپتال پہنچ گئیں جہاں انہیں دیکھ کر عوام ان کے دیوانے ہو گئے۔ بے خوف بینظیر بھٹو نے سیاسی واپسی کے لیے بھرپور مہم چلائی۔ سابق وزیر اعظم کا مقصدعوام میں کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل کرنا اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو آئندہ انتخابات میں فتح دلانا تھا۔ باوجودیکہ ان کا راستہ فوجی اور سیاسی حریفوں کے چیلنجوں سے بھرا ہوا تھا۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ بینظیر بھٹو کا جوش و ولولہ اور عوام کی خدمت کا جنون، دسمبر 2007 میں ختم ہو گیا۔ راولپنڈی میں انتخابی ریلی کے دوران ایک اور خودکش حملے میں ان کی جان چلی گئی۔ ان کی اس اچانک رحلت نے پاکستان کو گہرے سیاسی بحران میں ڈال دیا تھا۔ بینظیر بھٹو کی واپسی نے قوم میں امید کی شمع روشن کی تھی لیکن ان کی موت پاکستانی سیاست پر ان مٹ نقش چھوڑ گئی جو شاید رہتی دنیا تک قائم رہیں گے۔
(یہ مضمون ارمان صابر نے لکھا ہے، جو سینئر صحافی اور کراچی پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکریٹری ہیں۔ وہ ڈیلی ڈان، بی بی سی، اے پی اور اے آر وائی نیوز کے لیے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کا یوٹیوب پر Vlogs Sabir Arman اور ٹوئٹر پر @armansabirکے نام سے اکاونٹ موجود ہے)