کھلے آسمان تلے ،صحرا(تھر)کی ٹھنڈی تاروں بھری رات میں،جب بھی کوئی لوک گائیک شا ہ لطیف کا کلام گاتے ہوئے سْرماروی چھیڑ دیتا ہے تو سننے والے کھوجاتے۔
اس ْسرمیں ہجر اور وچھوڑے کا ایسا درد اور غم ہے کہ چاروں اور ایک ایسا سکوت چھا جاتا گویا سننے والوں کے ساتھ صحرا کی ہوائیں بھی رک جا تیں۔
اہل سندھ کو لوک داستان ’’ عمر ماروی‘‘ کی ماروی سے بہت پیارہے۔
اس ماروی نے اپنے لوگ اور اپنے گاؤں کی محبت میں عمر سومرو بادشاہ کا تخت و تاج بھی ٹھکرادیا تھا۔سندھ کے صوفی شاعرشاہ عبدالطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں ماروی کی داستان رقم کرکے اسے امر بنادیا ہے۔
کوک اسٹوڈیو کے معروف نغمے’’ آئی آئی‘‘ جسے اب تک 14ملین سے زیادہ لوگ دیکھ چکے ہیں ، میں ماروی ہی کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔
یہ مئی کا دوسرا ہفتہ تھا جب ہم نے عمرکوٹ کا سفر کیا،اور یہ وہی عمر کوٹ تھا جسے عمر ماروی کی کہانی نے تاریخ میں زندہ رکھا ہے۔ اس بار کہانی اور کردار کچھ مختلف تھے لیکن جذبہ بھی وہی تھا اور نام بھی، یہ آج کی ماروی تھی۔
اْس ماروی نے صدیوں پہلے اپنوں کے لیے تخت و تاج ٹھکرادیا تھا جبکہ آج کی ماروی نے اپنی آواز اور فن کے زور پر اپنے پیاسے لوگوں تک پانی پہنچا دیا۔
کوک اسٹوڈیو کے گانے ’’آئی آئی‘‘ کی گلوکارہ ماروی اور صاحباں عمرکوٹ کے قریب میگھواڑ گاؤں کی رہائشی ہیں۔ صحرائے تھر پارکر انتظامی لحاظ سے عمر کوٹ اور تھر دو حصوں میں منقسم ہے۔
ریت کا یہ صحرا گرمیوں میں گرم ترین ہوجاتا ہے۔
اس روز بھی سورج گویا سوا نیزے پر تھا جب ہم میگھواڑ گاؤں تک پہنچے۔
سندھ کے دیگر علاقوں کی طرح یہ گاؤں بھی پانی کمی کے شدید بحران سے دوچار تھا۔ یہاں دریا اور آب پاشی کے نہری نظام کی عدم موجودگی بھی پانی کی کمی کی ایک بڑی وجہ تھی۔
موسمیاتی تبدیلیوں نے کم بارشوں اور پانی کی سطح میں کمی کے ساتھ صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ خواتین اس بحران کا اصل شکار ہیں، خواتین کو آج بھی پانی کے دومٹکوں کے لیے تین سے پانچ کلومیٹر کا سفر پیدل چلچلاتی دھوپ میں طے کرنا پڑتا ہے۔
اوردن میں ایک بار نہیں کم از کم دو بار انہیں یہ مشقت کرنا ہی پڑتی ہے تاکہ وہ اور ان کے گھر والے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔ پانی بھرنے کی یہ ذمے داری روایتی اور ثقافتی طور پر عورت پر عائد ہے اور 8 سال کی بچی سے لے کر 50 سال کی عورت تک یہ ذمے داری ادا کرتی ہے اب چاہے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں خم آجائے، مہرے جگہ سے بے جگہ ہوجائیں یا کسی حاملہ عورت کا بچہ ضائع ہوجائے یہ کام تو اسے کرنا ہی ہے۔
مرد روایتی اور ثقافتی طور پر اس ذمے داری سے آزاد ہیں۔
سندھ کے اکثر گاؤں میں یہ منظرنامہ عام ہے۔۔۔ لیکن میگھواڑ گاؤں میں اب صورت حال تبدیل ہوچکی ہے۔
کوکا کولا(Coca-Cola) نے میگھواڑ گاؤں میں پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے شمسی توانائی سے چلنے والا ایک فلٹریشن پلانٹ نصب کیا ہے۔ یہ پلانٹ الٹرا فلٹریشن سسٹم کے تحت فی گھنٹا 1,000 لیٹر صاف پانی فراہم کر سکتا ہے۔
پلانٹ کی پائیداری کو بڑھانے کے لیے یہ سہولت سولر پینلز، GPS ٹیکنالوجی اور فلو میٹر سے لیس ہے۔
ارد گرد کے 800 گھرانے اور تقریبا 8 ہزار افراد اس صاف پانی سے مستفید ہورہے ہیں۔
اس پلانٹ کے حوالے سے گلوکارہ ماروی نے بتایا کہ ’’ کبھی کبھی ہمیں یہ خواب جیسا لگتا ہے کہ ہم پانی بھرنے کے لیے میلوں چلچلاتی دھوپ میں پیدل چلنے کی مشقت سے آزاد ہوگئے ہیں۔‘‘
رحیمہ جو چار بچوں کی ماں ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ گندا پانی پینے سے ان کے بچے آئے دن قے، دست اور اسہال میں مبتلا رہتے لیکن پلانٹ کے صاف پانی سے اب ان کے بچے بیماریوں سے محفوظ ہیں اور دور سے پانی بھرنے کی محنت سے بھی بچ گئے ہیں۔
ایک کمیونٹی لیڈر اور سماجی کارکن نند لال میگھوار نے اپنی کمیونٹی کو درپیش پانی کی شدید قلت کے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے بتایاکہ ’’ہم صحرا میں رہتے ہیں، اس لیے پانی کی کمی خشک سالی کے مترادف ہے۔ ہماری خواتین روزانہ چار کلومیٹر پیدل چل کر پانی لاتی ہیں، جس سے گھریلو معمولات میں خلل پڑتا ہے اور لڑکیوں اور خواتین پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ تاہم، ریورس اوسموسس پلانٹ کی تنصیب نے کمیونٹی کے ارکان کو ریلیف فراہم کیا ہے۔
وہ اب تقریباً اپنی دہلیز پر صاف پانی تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ‘‘
اس حوالے سے کوکا کولا پاکستان (Coca-Cola-Pakistan)سے وابستہ سینئر ڈائریکٹر پبلک افیئرزعائشہ سروری نے خاص طور پر خواتین اور بچوں کے لیے پینے کے صاف پانی تک رسائی کی اہمیت پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ “پاکستانی خواتین ملک بھر میں، خاص طور پر پانی کی کمی کا شکارعلاقوں میں پینے کے صاف پانی تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
ان کے بچے گندے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے اکثر بیمار پڑ جاتے ہیں۔
یہ اقدام( واٹر پلانٹ) اس بڑے مسئلے کو پائیدار طریقے سے حل کرنے کی طرف ایک چھوٹا قدم ہے۔‘‘
عائشہ نے مزید بتایا کہ پانی پراجیکٹ کے تحت واٹر فاروومن ( Water For Women )پروگرام اب تک پاکستان میں پانی کے 53 پلانٹس لگا کر تقریباً 17 ملین لوگوں کی خدمت کر چکا ہے۔ اس اقدام کا مقصد خواتین اور کمیونٹیز کو پینے کا صاف پانی فراہم کرکے ان کی صحت، تعلیم اور معاشی مواقع کو بہتر بنانا ہے۔
واٹر فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب ایک چھوٹے سے گاوں میں مثبت تبدیلی کی علامت بن گئی ہے ، جو صدیوں پرانے مسائل کا پائیدار حل پیش کرتی ہے۔
اس تبدیلی کا اثر کمیونٹی میں واضح نظر آتا ہے، یہ عمل خواتین کی خود اعتمادی میں اضافہ، صحت میں بہتری اور زندگی میں زیادہ اختیار دیتاہے۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، تھرپارکر ضلع کا زمینی پانی پینے، گھریلو استعمال، مویشیوں اور چھوٹے پیمانے پر زراعت کے لیے ایک اہم وسیلہ ہے۔ رہائشیوں کی اکثریت کا انحصار دور دراز کے کھودے ہوئے کنووں پر ہوتا ہے۔
یہ مشکل کام ان کے دن کا زیادہ تر حصہ خرچ کرتا ہے، خاص طور پر خشک موسم میں، خواتین اس بوجھ کا سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتی ہیں۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ضلع کاصرف 6 فیصد پانی قابل استعمال ہے۔
مزید یہ کہ پانی کے 10 فیصد نمونوں میں عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق قابل اجازت حد سے زیادہ آرسینک موجود ہے۔
ضلع عمرکوٹ کے حالات ضلع تھرپارکر سے مختلف نہیں ہیں۔
200 میٹر سے زیادہ گہرائی میں، زیر زمین پانی کا معیار مسلسل انتہائی نمکین ہے، جو تقریباً 99 فیصد علاقے کو متاثر کرتا ہے۔
اس خطے میں زمینی پانی کی نمکیات کی زیادہ مقدار کئی عوامل سے منسوب ہے، جن میں بے ترتیب بارش، خشکی، زیادہ درجہ ء حرارت اور زیر زمین پانی کا محدود ریچارج شامل ہیں۔
جدید سبز حل، جیسے شمسی توانائی سے چلنے والے پانی کے فلٹریشن سسٹم کی تنصیب اور بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی، ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اہم ہیں۔
یہ پائیدار ٹیکنالوجی نہ صرف صاف پانی کی قابل اعتماد فراہمی کو یقینی بنا کر فوری ریلیف فراہم کرتی ہیں بلکہ ماحولیاتی تحفظ کو بھی فروغ دیتی ہیں، جس سے موسمیاتی تبدیلی کے طویل مدتی اثرات کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے آج کے حالات کے تناظر میں اس طرح کے سبز اقدامات کی فوری ضرورت تاکہ ہم سب ایک لچک دار اور پائیدار مستقبل کو محفوظ بھی بناسکیں۔
سولر ٹیکنالوجی سے لیس میگھواڑ گاؤں میں لگنے والا واٹر فلٹریشن پلانٹ بھی ایسا ہی ایک پائیدار اور ماحول دوست عمل ہے جو دھیرے دھیرے مقامی افراد کی زندگی میں مثبت تبدیلی لارہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ پانی زندگی کی علامت بھی ہے اور ضمانت بھی۔
زندگی کا وجود پانی کے بنا ممکن نہیں۔
تہذیب ،روایات اور تاریخ پانی کے کنارے ہی پھلتی پھولتی ہیں۔ میگھواڑ گاؤں کی ماروی نے بھی تاریخ میں اپنا نام لکھوادیا ہے۔ اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں ہے کہ اپنے گاؤں میں پانی کی فراہمی کی فرمائش ماروی ہی نے کی تھی!