کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی سابق وزیرا علیٰ بلوچستان سردار اخترجان مینگل نے پی ٹی آئی پر مجوزہ پابندی سے متعلق ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں پر پابندی نئی بات نہیں
اور سیاسی جماعتوں پر پابندی مسائل کا حل نہیں کیونکہ حکومت عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے ۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف پر مجوزہ پابندی لگانے کے فیصلے پر رد عمل میں کیا۔ سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ ماضی میں بھی اس طرح کے فیصلے کئے گئے جس کی واضح مثال 1973 میں بھی نیشنل عوامی پارٹی پرپاپندی لگائی گئی تھی سیاسی جماعتوں پرپاپندی لگانا مسائل کاحل نہیں ہے کیونکہ موجودہ حکومت سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد بوکھلاہٹ کاشکارہوگئی ہے
جس کی وجہ سے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے بھونڈے فیصلے کئے جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ اگرپاپندی لگانی ہے تو سب سیاسی جماعتوں پرلگائیںاور سب سیاسی جماعتوں پرپابندی لگاکرایک عسکری جمہوری پارٹی بنائی جائے جو ان کی امنگوں کی ترجمانی کرے جمہوریت کے چیمپئن بھی اس پارٹی میں شامل ہوجائیںنہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری سیاستدانوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھاحکمران دوسرے کی بے ساکھیوں پر کھڑے ہوکر بول رہے ہیںجو درست عمل نہیں جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کیسربراہ سابق وزیراعلی بلوچستان سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ کوئٹہ واقعہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کوئٹہ میں خواتین کی بے حرمتی کی گئی اسلام اور قبائلی معاشرے میں اس کی اجازت ہر گز نہیں دیتا ریاست کو ماں کا کردار ادا کرنا چاہیے اور احتجاج پر بیٹھے بھائی اور بہنوں مائوں سے مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کرنا چاہییتشدد اور طاقت کے استعمال سے حالات مزید خراب ہونگے
جس کا موجودہ حالات میں یہ صوبہ متحمل نہیں ہو سکتا اگر حقیقی نمائندگی ہوتی تو ایسے واقعات بلکل پیش نہیں آتے پالیسی بنانے والوں کو بلوچستان اور اس میں رہنے والوں کو اپنا سمجھ کر ان سے متعلق سنجیدہ فیصلے کرنے ہونگے ان خیالات کااظہار سابق وزیر اعلی بلوچستان سردار اختر مینگل نجی ٹی وی کو خصوصی انٹر ویودیتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ لواحقین گزشتہ دس دنوں سے کوئٹہ کی سڑکوں پر احتجاج پہ بیٹھے تھے
لیکن حکومت نے مطالبات پر کان نہیں دھرا، مذاکرات اور بات چیت کو نظر انداز کرکے ہمیشہ کی طرح ریاستی طاقت کا استعمال کرکے پرامن احتجاجوں پر اسی طرح کریک ڈان کرکے آوازوں کو دبانے کی کوشش کی ہے
جس ریاست میں لاقانونیت کا راج رائج ہو وہاں کسی بھی شخص کی جان و مال محفوظ نہیں ہوسکتی انہوں نے کہا کہ پرامن احتجاج کرنا ہر شہری کاحق ہیاور یہ حق آئین فراہم کرتا پے۔افسوس ہے کہ آئین کی پاسداری خود حکومت نہ کررہی ہے
عوام کو جمہوری حق سے نہ صرف محروم کرنا کر رہی ہے بلکہ سنگین تشدد سے تمام تر روایات و اقدار کو پامال کرنے میں مصروف عمل ہے۔احتجاجی ریلی میں خواتین بچے اور بزرگ بھی شامل تھے ان کو سڑکوں پر گھیسٹا گیا و شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ظلم و ناانصافی کی انتہا کو مزید چھوتے ہوئے خواتین اور نوجوانوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔جو کہ نام نہاد جمہوری نظام کی آمرانہ انداز طرز حکومت ہے۔
جو کسی طور پر قبول نہیں ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسلہ سیاسی ہے اور سیاسی مسائل کا حل بات چیت سے نکالا جاتا ہے طاقت کے استعمال ماضی میں بھی نقصان کا باعث تھا اور آج بھی ہے انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسلہ انسانی حقوق سے منسلک ہے اس لیے لاپتہ افراد کو آئین کے مطابق عدالتوں میں پیش کی جائے اور آمرانہ رویہ کو ختم کیا جائے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل طاقت کے غیر ضروری استعمال میں نہیں بلکہ گفت و شنید اور ڈائلاگ کرکے افہام و تفیم کے ذریعے حل کرنے سے ممکن ہے جن عناصر نے پر امن احتجاج کرنے والی ہماری ماں اور بہنوں پر تشدد کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے وہ بلوچستان کو مزید آگ میں جھونکنے کا منصوبہ بنا چکے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہیں۔
ایسے واقعات سے بلوچستان کے باسی مزید بددل اور مایوس ہوتے جا رہے ہیں جہاں ان کو پاکستان کا شہری ہونے کے باوجود بنیادی حقوق تک حاصل نہیں۔
اگر ایوان میں حقیقی نمائندے آتے تو ایسے کسی واقعے سے پہلے کئی بار سوچتے اور ایسا واقعہ ہوتا ہی نہیں بلکہ بات چیت سے مسئلہ کا حل نکلتا ہے سابق وزیر اعلی بلوچستان اختر مینگل نے مزید کہا کہ بلوچستان کی تاریخ میں ایسے کم دن دیکھنے کو ملے ہیں جب بے دردی کے ساتھ خواتین و بچیوں پر لاٹھی چارج کیا گیا
ہو موجودہ فارم 47 کے صوبائی حکمران کٹھ پتلی ہیں ان کی اتنی طاقت نہیں کہ وہ خواتین پر ہونے والے مظالم کو رکوا سکیں یہ صرف تماشہ ہی دیکھ سکتے ہیں بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے خواتین پرامن طور پر سریاب میں احتجاج پر ہیں ہونا تو یہ چاہئیتھا کہ ان کے پیاروں کو جنہیں غیر آئینی ، ماورائے عدالت لاپتہ کیا گیا ہے انہیں بازیاب کروا کر منظر عام پر لایا جاتا مگر آج ایک بار پھر ثابت ہو چکا کہ حکمران بلوچستان کے مسئلے کو ہل ہی نہیں کرنا چاہتے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی موجودہ حکومت اس وقت بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں تاکہ ان کی حکمرانی قائم اور سیاسی دکانداری چلتی رہے
انہوں نے کہا کہ عدالت عالیہ پولیس گردی ، خواتین پر تشدد کا از خود نوٹس لے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں اس واقعے میں پولیس حکام ، انتظامیہ کے جو احکامات تھے عدالت عالیہ اس پر سخت اقدام اٹھائے انہوں نے کہا کہ میں اور میری پارٹی دہائیوں سے بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی اور اس مسئلے کے حل کے حوالے سے آواز بلند کرتی چلی آ رہی ہے
یو این اے نیوز،ہر فورم پر پارٹی اکابرین نے آواز بلند کی لیکن حکمرانوں کو لاپتہ افراد کا مسئلہ آج تک سمجھ نہیں آیا ہزاروں لاپتہ افراد کے مسئلے کو یہ مسئلہ نہیں سمجھتے جو کھلم کھلا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے کوئٹہ میں ہونے والے ظلم و زیادتی ، خواتین کے ساتھ ناروا سلوک ، لاٹھی چارج ، شیلنگ ، طاقت کابے بجا استعمال حکمرانوں کیلئے باعث ندامت ہونا چاہئے
جو اسمبلیوں میں بیٹھ کر بلوچستان کے اصل مسئلوں کو اجاگر نہیں کرتے فارم 47کے ذریعے جنہیں کامیاب کرایا گیا اس کا مقصد یہی تھاکہ بلوچستان میں ظلم و زیادتیوں کا تسلسل جاری ہے تاریخ اس سیاہ دن کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا صوبائی حکومت میں شامل تمام جماعتیں اس میں شریک جرم ہیں انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز کوئٹہ میں بلوچ عوام کے ساتھ کیا گیا اور وزیراعلی بلوچستان اسلام اباد میں گھوم رہے تھے اور بلوچستان کی عوام پر ظلم ہو رہا تھا اس واقعے کے بعد ایک بیان بھی جاری کرنے کی توفیق نہیں کی اور نہ ہی کسی اعلی حکام سے کوئی رپورٹ طلب کی گی کیا کسی صوبے کا وزیر اعلی ایسا ہوتا ہے۔