بلوچستان کے دیگر سرکاری اداروں کی طرح ایک اہم ادارہ بلوچستان ہاؤس اسلام آباد ہماری انتظامیہ کے افسران کی ذاتی پسند اور ناپسند کی وجہ سے اب تقریباًتباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ، اگر دیکھا جائے تو اس کی لوکیشن دیگر صوبوں کے ہاؤسز سے سب سے بہترین اور مین بڑی سڑک پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں سے میٹرو بس،سروس ٹیکسی سروس ، اسلام آباد سیکرٹریٹ ،قومی اسمبلی وسینٹ ،سپریم کورٹ اور دیگر اہم دفاتر ’’واکنگ ڈسٹینس‘‘ یعنی پیدل چل کر بھی پہنچا جا سکتا ہے،
بنسبت دیگر صوبوں کے ہاؤسز کے ۔لیکن اس اہم لوکیشن پرواقع اس ادارے کو محکمہ ایس اینڈ جی ڈی کی انتظامیہ نے اپنی ذاتی پسند ونا پسند پر کنٹرولر کی تعیناتی کو ایک اہم ایشو بنا دیا ہے ، ہر آنے والا وزیراعلیٰ اور وزیر ایس اینڈ جی اے ڈی کی ذاتی منشا اور مرضی کے عمل دخل نے افسران میں بددلی پید ا کر دی ہے ، جب بھی آپ معلومات کرنے کی کوشش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کنٹرولر صاحب کا تبادلہ ہو چکا ہے ،
اب فلاں صاحب کنٹرولر بنا دیئے گئے ہیں ، وجہ سابق کنٹرولر کسی کا منظور نظر نہ تھا آنے والا منظور نظر ہے وغیرہ وغیرہ ۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں بلوچستان ہاؤس اسلام آباد کے اتنے کنٹرولر تبدیل ہو چکے ہیں جتنے کسی اور ہاؤسز کے نہیں ہوئے۔ اب متواتر پوسٹنگ سے اس اہم ہاؤس کا نظام تقریباً درہم برہم ہو چکا ہے ،
اول تو کوئٹہ ایس اینڈ جی ڈی اے ڈی سے کمروں کی بکنگ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اس کی بکنگ ایسے ہے کہ جیسے آپ کسی کی بیٹی کا رشتہ مانگ رہے ہوں۔ خدا خدا کرکے بکنگ ہو بھی جائے تو وہاں جا کر پتہ چلتا ہے کہ کمرے رہائش کے قابل ہی نہیں چھوڑے گئے ہیں۔صفائی ستھرائی کا نام ونشان تک نہیں ،کمروں میں بدبو اورکچروں کا ڈھیر ہے ۔
کچن میں صفائی کا دور دور تک وجود نہیں ۔ جو بھی سرکاری اہلکار یا مہمان یہاںرہائش کرتا ہے تو وہ اپنا کھانا پینا کرنے کی بجائے شہر کے پرائیویٹ ہوٹلز میں جاتا ہے۔ کھانے پکانے کے لئے جس ٹھیکیدار کو ٹھیکہ دیا گیا ہے اس کی کارکردگی زیرو ہے۔
وہ انتہائی ناقص کوکنگ آئل استعمال کرتا ہے جس کے باعث یہاں ہرتیسرے شخص کو اکثر موشن کی شکایت رہتی ہے۔
اس خوف سے مہمان باہر کھانا کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔اب تو ماشاء اللہ اس ہاؤس کے کمروںمیں بلوچستا نی کم اور پنجاب کے لوگ بلکہ یوں کہو کہ جتھوں کی صورت میں آکر بکنگ کرتے نظر آرہے ہیں۔معلوم ہوا کہ ایک اعلیٰ شخصیت نے بلوچستان میں اپنے چند اسلام آباد سے لائے گئے دوستوں کیا اٹیچمنٹ پر پوسٹنگ کر دی ہے کہ ان افسران نے پنجاب میں اپنے تمام رشتہ داروں کو بلوچستان ہاؤس میں ٹھہرانے کا ذمہ لیا ہے ۔
یہ لوگ پنجاب کے مختلف علاقوں سے گرمیوں کی چھٹیوں میں گلگت ، مری اور دیگر پرفضا مقامات کی سیر کو نکلنے سے پہلے اپنا پہلا پڑاؤ اسلام آباد بلوچستان ہائوس میں کرتے ہیں۔
یہ چھوٹی گاڑیوں سمیت ٹویٹا ہائی ایس تک میں جتھوں کی صورت میں بلوچستان ہاؤس کی گیلریوں میں نظر آتے ہیں۔
بلوچستان کی اس اہم شخصیت کو اس بات کا نوٹس لے کر بلوچستانیوں پر رحم کرنا چاہیے کہ اگر پنجاب کے لوگ یہاں آکر ٹھہرنا شروع ہو گئے ہیں تو بلوچستان کے لوگ اور سرکاری اہلکار کہاں جائیں گے۔
ان کا والی وارث بننے کی بجائے بلوچستان اور بلوچستان کے لوگوں کے مفادات کا پاس کیا جانا چاہیے اور اس ہاؤس کی حالت بہتر بنانے اور اور منظور نظر کنٹرولرز کی تقرریوں سے گریز کرکے اس کی حالت زار کو بہتر بنائیں تاکہ لوگ اطمینان سے اس میں رہ سکیں ۔