موجودہ گرین بیلٹ بلوچ قومی تاریخ میں ایک وسیع مقام رکھتا ہے۔ اسے صرف پٹ فیڈر اور کھیرتھر کینال کے میگا پروجیکٹس تک محدود نا رکھا جائے۔ اگر دانشوروں اور تاریخ دانوں کا دعویٰ ہے کہ مہر گڑھ کی نوادرات ہزاروں سال پرانی تہذیب درحقیقت بلوچ تہذیب ہی ہے۔
تو ہم ناڑی واسیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ چار دریاؤں کی زمین ناڑی ہی مہر گڑھ ہے۔ کوہ سلیمان کے کھور سے بہتا دریا چھتر، ہرنائی اور ژوب کی پہاڑوں سے بہتا دریا ناڑی سے ہینگڑ اور قبولہ ندی، جبکہ دریا بولان سے پھوٹنے والے چشمے و جھرنے اور جھالاوان کا دریا مولا اسی ناڑی کے میدان میں آکر کھلتے ہیں۔ اور یہاں ناڑی کی زرخیز زمین کو ہزاروں سال سے آباد کرتے رہے ہیں۔ یہی ناڑی مہر گڑھ سے لے کر چاکری ریاست اور ریاست قلات تک سب کو غذائی ضروریات فراہم کرنے کا اہم مرکز رہا ہے۔
جدید دور میں بھی جیکب آباد انگریز سامراجی ایڈمنسٹریشن قائم ہوا تو وہ خطے کی اہمیت خوب جانتے تھے۔ تبھی 1932 میں پہلی بار Mega Imperial Project کے ذریعے کھیرتھر کینال سے ان وسیع اراضیوں کو آباد کیا گیا۔ یہیں سے موجودہ گرین بیلٹ میں روایتی جاگیری نظام دم توڑ کر جدید نہری نظام کے ذریعے زرعی سرمائے داریت کو فروغ ملنا شروع ہوا۔ موجودہ ریاست نے پٹ فیڈر اور کچھی کینال کے منصوبے سے پوری ناڑی کی بنجر زمینیں آباد کرکے اپنے لئے وفادار نیم قبائلی اور نیم سرمایہ دارانہ جاگردار طبقہ پیدا کیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ اشرافیہ طبقہ بہت طاقتور ہوا اور جس طرح گوادر کے ٹرالر مافیا نے چھوٹے مچھیروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا، اسی طرح بڑے جاگیرداروں نے چھوٹے کاشتکاروں کی زمین ہڑپنے شروع کئے۔ نتیجتاً موجودہ گرین بیلٹ قبائلی تنازعوں کا بھی مرکز بن گیا ہے۔ یہ قبائلی تنازعے زمینی تنازعے سے شروع ہوکر عام عوام میں قبائلی شناخت کی بنیاد پر نفرت کی سیاست میں تبدیل ہوتا رہا۔ قبائلی لوگوں میں یہ بھی تاثر پایا جاتا ہے کہ دیگر قبائل کے جاگیردار برے جبکہ انکے اپنے قبیلے کا جاگیردار فرشتہ ہے۔ اور ا س کے ہر قول پر آنکھیں بند کرکے مرنا اور مارنا جائز ہے۔ یہ تنازعے معمولی نہیں ہوتے، صرف 2022 کی سیلاب سے خشک سالی ٹوٹا تو قبائلی جھگڑے شروع ہونے پر درجنوں لوگ ایک ماہ میں قتل ہوئے۔
ماحولیاتی نکتہ نظر سے دیکھیں تو ریاست پاکستان کی موجودہ تمام تر ترقیاتی منصوبے انہیں چار دریاؤں کا راستہ کاٹ کر بنائے گئے ہیں جہاں سے قدرتی بہنے والے ان دریائی پانیوں کے گزر گاہ تھے، اب وہ تمام تر راستے بلاک کردیے گئے۔ متواتر سیلابوں کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ریاستی ناکارہ ترقیاتی منصوبے ہیں جو صرف نفع کمانے کی غرض سے رکھے گئے تھے۔ صرف 2022 کے سیلاب میں ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے، انکے انگنت جانور مرے اور لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصل تباہ ہوئے۔
بلوچستان میں cpec سے طبقاتی کشمکش میں اضافہ ہوگا، وہیں زرعی سرمائے داریت سے بھی بلوچ سماج میں مزید طبقاتی تقسیم پڑنے کی واضح نشانیاں مل رہی ہیں۔ موجود طبقاتی کشمکش آئے روز کے ساتھ واضح شدت اختیار کررہا ہے تو وہیں یہ بھی دکھنے کو مل رہا ہے کہ بلوچستان میں
uneven development مختلف قسم کی نفرت اور جنگوں کا سبب بھی بنتا ہے۔ بلوچستان میں قومی تحریک کو کمزور کرنے کے لئے ہمیشہ یہی نفرت خانہ جنگی کا بھی ایندھن بنتا ہے۔ اور ریاست ایسا ہی ماحول پیدا کرکے عام عوام کی بیگانگی کو بڑھاتا ہے۔
گرین بیلٹ کی قومی تحریک سے بیگانگی کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ یہی نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ سیاست کے باعث پیدا ہونے والی نفرت بھی ہے۔ جس میں زبان اور طبقاتی بنیادوں پر کشمکش قومی رجحان کو کم کرنے اور نفرت کا ماحول پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ یہ سب رویے موجودہ گرین بیلٹ کے سیاسی ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں جوکہ بہت بڑا ناسور ہے۔
اس خطے میں ایسے کسی قسم کے خانہ جنگی کو پروان چڑھانے کے بجائے قومی ہم آہنگی کو فروغ دیا جانا چاہئے مگر یہاں موجود پارلیمانی سیاست نفرت کو جنم دیتا ہے۔ ناڑی میں قومی تحریک کی کامیابی تبھی ممکن ہے جب یہاں سارے اقوام کے نوجوان، کسان، مزدور اور دیگر طبقہ فکر کے لوگ اس نفرت کی سیاست کو دفن کرکے بلوچ قومی شناخت کی بڑھوتری پر توجہ دیتے ہوئے ایک ہی “بلوچ راجی مچی” میں جمع ہوں۔ خانہ جنگی، لسانی تعصب اور قبائلی نفرت ریاستی پالیسیوں کے سبب سے ہے کہ جس میں یکسر ترقی نا ہونے کے سبب مقابلے کا ماحول پیدا ہوتا ہے جو نفرتوں کو جنم دیتا ہے۔ ریاستی ترقی کا یہ راستہ خوشحالی نہیں بلکہ مزید قبائلی نفرتوں کا باعث بنتا جارہا ہے۔
ہمیں حکمرانوں سے لڑناہے ، ہمیں جاگیرداروں کے خلاف بھی جنگ لڑنی ہے، ہمیں محنت کش چرواہوں اور کسانوں کو ان جاگیرداروں کے چنگل سے بچانا بھی ہے مگر ساتھ ہی ہمیں ایسی نفرت کی سیاست کا بھی کھل کر مقابلہ کرنا ہوگا جو خانہ جنگی کا سبب بنتے ہیں جسکا فائدہ ہمیشہ مختلف زبان بولنے والے جاگیرداروں ہی کو ہوتا ہے۔ اس سب سے بچاؤ کا واحد راستہ political agitation کو تیز کرنا ہے جسکے لئے گرین بیلٹ میں بھی “بلوچ راجی مچی” بے حد ضروری ہے۔