|

وقتِ اشاعت :   August 15 – 2024

پاکستان کو ہر دو یا تین سال بعد آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ ملک کااخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہے۔اب تک پاکستان آئی ایم ایف سے 23 بار بیک آوٹ حاصل کر چکا ہے اور یوں پاکستان آئی ایم ایف چیمپیئن بن چکا ہے۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر عبد العظیم اس حوالے سے کہتیہیں کہ آمدنی کے کم ہونے کی وجہ سے ملک کو خسارے کا سامناہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے حکومت ملکی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا رخ کرتاہے۔ روپے کی صورت قومی بینکوں اور غیر ملکی کرنسی کی صورت میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور مختلف ممالک سے قرض لینا پڑتا ہے۔ حالات اب اس قدر گھمبیر ہوچکے ہیں کہ پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی کے لئے نئے قرضوں کی ضرورت پڑتی ہے۔سب سے بڑی وجہ ٹیکس کا ناقص نظام ہے جس کی وجہ سے ملک کو مالی خسارے کا سامنا رہتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ ٹیکس کیوں جمع نہیں کرتے اور ادا کرنے سے کیوں کتراتے ہیں’ کیونکہ ٹیکس دہندگان (Tax Payers)کا ریاست کی ایمانداری اور پیشہ ورانہ طریقے سے اپنی رقم کو سنبھالنے اور خرچ کرنے کی اہلیت پر اعتماد کی کمی ہے۔ان میں حکومتی سطح پر ضرورت سے زیادہ غیر ضروری اور غیر ترقیاتی اخراجات، وسائل کا لوٹ مار اور ضیاع، سرکاری اداروں میں بے تحاشہ کرپشن، ٹیکسیشن کے نظام کی پیچیدگیاں، غریب اور متوسط طبقے پر ٹیکسوں کی بارش اور اشرافیہ سے ٹیکس وصولی میں ناکامی شامل ہیں۔ اس غیر منصفانہ اور بوسیدہ نظام سے ملک کے غریب اور متوسط طبقہ غریب سے غریب تر جبکہ شاہانہ زندگی بسر کرنے والا امیر طبقہ امیر تر ہوتا جارہاہے۔
ماہر ٹیکس امور ذیشان مرچنٹ کے مطابق اس وقت ملک کی آبادی تقریباً 25 کروڑ ہے جبکہ ٹیکس فائلرز کی تعدار محض 45 لاکھ ہے۔پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے دیکھا جا? تو صرف دو فیصد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی بہت کم ہے صرف 10 فیصد ہے۔ عام عوام کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف یہ 45 لاکھ لوگ ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت ہر شہری ان ڈائریکٹ ٹیکسز (Indirect taxes) کی صورت میں ٹیکس دے رہاہے جو کہ کل جمع شدہ محصولات کا 70 فیصد ہے۔ ہر وہ شخص (خواہ امیر ہو یا غریب) جو موبائل فون استعمال کررہاہے یا دکان پر جاکر کچھ خرید رہا ہے وہ سیلز ٹیکس (Sales tax) کی مد میں حکومت کو ادائیگی کررہاہے۔ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق کہتیہیں پاکستان میں اس وقت 30 فیصد ٹیکس ڈائریکٹ ٹیکسوں جبکہ 70 فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے اکٹھا کیاجاتا ہے۔وفاقی وزارت خزانہ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 30 جون 2023 کو ختم ہونے والے مالی سال میں انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 7169 ارب روپے اکھٹا کیاگیا۔ ان ڈائریکٹ ٹیکس تو ہر صارف سے لیا جاتا ہے خواہ وہ غریب ہو یا امیر دونوں سے لیا جاتا ہے۔ مگر ان ڈائریکٹ ٹیکس کا زیادہ بوجھ غریب پر پڑتا ہے کیونکہ محدود آمدنی کی وجہ سے ان ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے جبکہ امیر طبقات کی زیادہ آمدنی کی وجہ سے ان پر بوجھ زیادہ نہیں پڑتا ہے۔ غریب طبقہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کیبوجھ تلے دب چکا ہے وہاں امیر طبقات کی آمدنی میں اضافے کی باوجود ٹیکس ادا کرنے سے قاصر یا گریزاں ہیں۔ موجودہ بوسیدہ نظام غریب یا متوسط طبقات کو مسلسل نشانہ کررہاہے۔
پاکستان کے مختلف شعبوں میں ٹیکسوں کی ادائیگی کا جائزہ لیں تو ہر شعبے کی ٹیکس وصولی کی شرح مختلف ہے۔ صنعتی شعبے کا جی ڈی پی میں حصہ 20 فیصد ہے مگر اس کے ٹیکس میں حصہ 28 فیصد ہے۔ زراعت کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 28 فیصد ہے تاہم اس کے ٹیکس جمع کرنے کی شرح بمشکل ایک فیصد ہے۔پاکستان اکنامک ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2022 میں تمام صوبائی حکومتوں نے مجموعی زرعی انکم ٹیکس صرف 2.4 ارب روپے اکٹھا کیا حالانکہ یہ ٹیکس جمع کرنے کی صلاحیت 800 ارب روپے تک ہے.اسی طرح ملک میں ہول سیل اور ریٹیل شعبے کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 19 فیصد ہے لیکن اس شعبے سے ٹیکس اکھٹا کرنے کی شرح محض ایک فیصد ہے۔ صنعتی شعبے کے مقابلے میں زراعت کے شعبے سے بہت کم ٹیکس ادا کی جاتی ہے۔ اس غیر منصفانہ ٹیکسیشن نظام کی وجہ سے ایک فرد سے زیادہ تو دوسرے فرد سے کم ٹیکس جمع کی جاتی ہے، اس حوالے سے ایک مقامی فرم کہتا ہے کہ زرعی شعبے کا ایک فرد جس کا سالانہ آمدن ڈھائی کروڑ تک ہے تو وہ محض چند ہزار روپے ٹیکس ادا کرتاہے مگر دوسری جانب صنعتی شعبے کا فرد جس کی آمدن بھی یہی ہے مگر اس کو لاکھوں روپوں کاٹیکس ادا کرنا پڑتاہے۔کچھ شعبوں میں زیادہ تو کچھ شعبوں میں کم ٹیکس وصول کی جاتی ہے۔ رئیل اسٹیٹ اور زراعت پر سیاسی وجوہات کی وجہ سے مشکل سے ٹیکس عائد ہوتا ہے۔
ٹیکسیشن کے ناقص نظام نے غیر رسمی معیشت کو ہوا دی ہے۔ غیر رسمی معیشت کی بڑی وجہ ٹیکس حکام اور کاروبار میں بد عنوانی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق ٹیکس جمع ہونے والے 100 روپے میں سے صرف 38 روپے حکومت کو جاتے ہیں جب کہ 62 روپے ٹیکس دہندگان، ٹیکس جمع کرنے والوں اور ٹیکس پریکٹیشنرز میں تقسیم کیے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ٹیکس ریونیو حاصل نہیں ہوتا۔ ایک اور وجہ رسمی کاروباروں پر زیادہ ٹیکس کا بوجھ ہے، جو ان کے لیے منافع بخش کام کرنا مشکل بنا سکتا ہے۔ غیر رسمی کاروبار کے مالکان کا کہنا ہے کہ حکومت بہت کم یا کوئی خدمات فراہم نہیں کرتی ہے. اس لیے غیر رسمی کاروبار کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ٹیکسیشن کے بوسیدہ نظام اور زیادہ ٹیکس کے بوجھ کی وجہ سے لوگ عام طور پر نقد لین دین کو ترجیح دیتے ہیں۔ McKinsey Global کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق، ڈیجیٹل ادائیگیوں کا حصہ برطانیہ میں 55% اور امریکا میں 49% ہے، پاکستان میں یہ 1% سے بھی کم ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پاکستان کی معیشت میں 60 فیصد سے زیادہ لین دین نقدی میں ہوتے ہیں۔ تعمیرات، مینوفیکچرنگ فیکٹریوں، اور اسی طرح کے دیگر چھوٹے پیمانے کے کاروبار کے لیے مزدوروں کی خدمات حاصل کرنے میں نقد پر مبنی روزگار عام ہے۔ اس طرح اقتصادی پیداوار کا ایک اہم حصہ دستاویزات اور ٹیکس سے بچ جاتا ہے کیونکہ یہ نقد لین دین کے سائے میں کام کرتا ہے۔
پاکستان کا ٹیکس نظام عدم توازن کا شکار ہے۔اس تفاوت کو دور کرنے کے لیے ہر شعبے کو معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا، یہ وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت کو موثر اصلاحات لانے کی اشد ضرورت ہے۔ٹیکسیشن نظام کو بہتر بنانے کے لئے کچھ ممکنہ حل یہ ہے کہ امیروں پر لاگو ہونے والے ڈائریکٹ ٹیکسوں کا نفاد زیادہ ہو اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح کم کی جائے جس سے غریب اور متوسط طبقے کا بوجھ کم ہوسکتی ہے۔ غیر رسمی معیشت کو رسمی اور رجسٹریشن کے ذریعے ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور ٹیکس چھوٹ کو کم کیا جائے۔ ٹیکس دہندگان کے لیے تعمیل کو آسان بنانے کے لیے ٹیکس جمع کرنے کے طریقہ کار کو آسان بنانا اور ٹیکس کے قوانین اور ضوابط کی وضاحت اور شفافیت یقینی بنایا جائے۔جدید دور میں ٹیکس دہندگان کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے ٹیکس ادا کرنے کے لیے ڈیجیٹلائزیشن ٹیکس ادائیگی کا طریقہ کار متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ٹیکس انتظامیہ میں بدعنوانی کو کم کرنے کے لیے مضبوط اقدامات کو نافذ کرنا اور ٹیکس وصولی اور اخراجات میں شفافیت اور جوابدہی کے لیے ٹھوس طریقہ کار بھی قائم کرنا۔سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک کی معاشی و مالی استحکام کے لئے ٹیکسیشن نظام میں بہتری لانے کیلئے اہم پیشرفت کرنی ہوگی اور یہ وقت کا تقاضا ہے۔