|

وقتِ اشاعت :   August 21 – 2024

لاہور : کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز(سی پی این ای) کی پنجاب کمیٹی کے اجلاس میں پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنزڈاکٹر شہنشاہ فیصل عظیم نے خصوصی شرکت کی۔

اجلاس میں سی پی این ای کی پنجاب کمیٹی کی سفارشات پر ڈی جی پی آر نے سرکاری اشتہارات کے اجرا ء و ادائیگیوں سے متعلق تمام تر امور میں شفافیت کو فروغ دینے کے لئے متعلقہ ڈیٹا ویب سائٹ پر ڈالنے کی سفارشات کی منظوری کا جائزہ لینے کا عندیہ دے دیا۔

مقامی کلب میں ہونے والی ملاقات میں سی پی این ای پنجاب کمیٹی کے چیئرمین ایاز خان،پنجاب کے نائب صدربابر نظامی، سیکرٹری جنرل اعجاز الحق، جمیل اطہرقاضی، کاظم خان، بابر نظامی، ضیا ء تنولی،وقاص طارق، ذوالفقار راحت، احمد شفیق، تنویر شوکت، فرخ شہباز، محمد ارشد روحانی، سید مصور زنجانی، محمد اسلم میاں، توفیق الرحمان، محمد اکمل چوہان، شہزاد امین اور فہد صفدر شریک ہوئے۔

ملاقات کے دوران سی پی این ای پنجاب کمیٹی کے چیئرمین ایاز خان نے ڈی جی پی آر پنجاب ڈاکٹر شہنشاہ فیصل عظیم کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے ان کا خیرمقدم کیا۔

ڈی جی پی آر ڈاکٹر شہنشاہ فیصل عظیم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنے عہدے کا چارج سنبھالے محض ایک ہفتہ ہوا ہے،ابتدائی بریفنگز کے دوران مجھے محکمہ کے مسائل کو سمجھنے میں مدد ملی ہے۔

میرے علم میں یہ بھی آیا ہے کہ سال 2012 کے سرکاری اشتہارات کے واجبات ابھی تک واجب الادا ہیں۔

مجھے بریفنگز میں بتایا گیا ہے کہ اخبارات میں اشتہارات چھپوانے کا کوئی بھی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے اسی لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ایسا نظام تشکیل دیا جائے جس میں ریجنل اخبارات سمیت ہر کسی کو شفافیت کے ساتھ مناسب شیئر ملتا رہے۔

سی پی این ای سمیت تمام تنظیموں سے ملنے والا فیڈ بیک میرے لئے اہمیت رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے بجٹ میں اعلان کئے گئے منصوبہ جات پر رواں ماہ کے دوران کام شروع کر دیا گیا ہے

حالانکہ ماضی میں اعلان کردہ منصوبوں کے پی سی ون پر ہی چھ چھ ماہ تک کام جاری رہتا تھا اور منصوبے پر باقاعدہ عملدرآمد تاخیر کا شکار ہو جاتا تھا لیکن اس حکومت میں ایسا نہیں ہے بلکہ منصوبوں پر عملی کام کا آغاز ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اشتہارات بھی باقاعدگی سے جاری ہو رہے ہیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ سی پی این سی اپنی 2 رکنی کمیٹی تشکیل دے جو مجھ سے رابطے میں رہے

تاکہ ان کو اشتہارات کے اجراء اور ادائیگیوں میں کسی قسم کی تاخیر یا مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اجلاس سے خطاب میں اعجاز الحق نے کہا کہ موجودہ دور حکومت میں سوشل میڈیا پر فی الحال کوئی کنٹرول نہیں ہے شاید اسی لئے سوشل میڈیا کے حوالے سے فائر وال کی تنصیب کی اطلاعات ہیں لیکن کچھ سمجھ نہیں آ رہاکہ کیا ہونے جا رہا ہے لیکن سابقہ حکومتوں کے ادوار میں بھی وزیر اطلاعات کا رویہ قابل ستائش نہیں رہا۔ آج ہمارے اخبارات میں بڑے اسکینڈلز کے بارے میں خبریں نہیں چھپتیں۔

صحافیوں کی پانچ بڑی تنظیموں کی بننے والی مشترکہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی کچھ نہ کچھ افادیت نظر آ رہی ہے اور اب براہ راست مالکان پر ہی دبائو آتا ہے۔ پنجاب میں اشتہارات کی تعداد ماضی قریب کی نسبت زیادہ نظر آ رہی ہے لیکن ان اشتہارات کے واجبات کلیئر نہیں کئے جا رہے جو ایک بڑا مسئلہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وفاق کی طرح پنجاب میں بھی اشتہارات کے اجرا اور ادائیگیوں کے حوالے سے تمام تر ڈیٹا ویب سائٹ پر ڈالنے سے نظام میں شفافیت آئے گی جبکہ سی پی این ای اور محکمہ تعلقات عامہ کی مشترکہ کمیٹی کی تشکیل سے بھی مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔ سینئر صحافی جمیل اطہر نے کہا کہ آج بداعتمادی کا دور دورہ ہے، موجودہ دور میں حالات یہ ہو چکے ہیں کہ ایک کمرے میں ہونے والی ملاقات کا احوال چند ہی لمحوں میں متعدد افراد تک پہنچ جاتا ہے۔ ہم اپنی آزادی کے خود ہی دشمن ہیں۔

میں 18 سال کی عمر میں ایڈیٹر بنا تھا اور میں نے ہمیشہ غلامی کا دور دیکھا۔ کبھی اخبار کے مالک کی غلامی تو کبھی انفارمیشین آفیسر کی غلامی۔ پہلے دور میں اخبارات اور صحافی پر اس کا قاری فریفتہ ہوا کرتا تھا جبکہ آج ہمیں وہ قاری میسر نہیں۔ بطور پبلشر اور بطور کارکن صحافی، یہ کانٹوں کی مالا ہے۔

ضیاء کا دور سب سے بدتر دور تھا۔

آج کے دور میں پابندیوں کی وجہ سے ہمارے اخبارات کا وجود سکڑتا جا رہا ہے اور ہمارا اثر کم ہوتا جا رہا ہے۔

کچھ دیدہ اور کچھ نادیدہ قوتوں نے ہم سے ہمارے قلم کی قوت چھین لی ہے جس کی وجہ سے میں اپنے اخبار میں اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں لکھ سکتا۔ ہمارے دشمن ہمارے اندر موجود ہیں۔

دعا ہے کہ ہماری تنظیمیں مضبوط ہوں اور ہمارا جینا مرنا ایک ساتھ ہو تو ہمیں اپنی آزادی چھیننی نہیں پڑے گی بلکہ یہ خودبخود ہماری جھولی میں آ گرے گی۔

ذوالفقار راحت نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آزادی صحافت کے بغیر ہمارا پلیٹ فارم مکمل نہیں ہوتا۔ آج ہمیں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ عملی طور پر آج آزادی اظہار رائے کی گنجائش کم ہو چکی ہے جو آئیڈیل صورتحال نہیں بلکہ انتہائی گھمبیر ہو چکی ہے۔

ان حالات میں ہماری تنظیموں میں پیش قدمی کرنے کی کتنی صلاحیت ہے، یہ ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ آزادی صحافت کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی بقاء کی جنگ بھی لڑنا پڑ رہی ہے۔

اشتہارات یعنی بزنس آج آزادی صحافت سے مکمل طور پر جڑ چکا ہے تو ایسے میں سی پی این ای کے پلیٹ فارم سے ہمارا جاندار موقف سامنے آنا چاہیئے۔

ضیا ء تنولی نے ملاقات کے دوران تجویز دی کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو محکمہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ سرکاری اشتہارات کے پیسوں کی ادائیگی کے لئے موثر نظام تشکیل دے اور اس نظام کے ذریعے تصدیق کے بعد پیسے ازخود اخبارات کو ٹرانسفر ہو جایا کریں۔

سی پی این ای پنجاب کمیٹی کے اجلاس میں صوبے میں آزادی صحافت کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

سی پی این ای پنجاب کمیٹی کے اجلاس کے دوران رکن ڈاکٹر زبیر محمود کے ماموں کے انتقال پر فاتحہ خوانی اور دعائے مغفرت بھی کی گئی۔