|

وقتِ اشاعت :   August 26 – 2024

بظاہر نواب اکبر خان بگٹی اور اسلام آباد کی مقتدرہ کے مابین سیاسی کشمکش اور تصادم کا آغاز سوئی گیس پلانٹ میں تعینات خاتون ڈاکٹر شازیہ خالد کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے نتیجے میں سامنے آیا جس پر نواب بگٹی نے بلوچی روایات کے تحت شدید ردعمل دیتے ہوئے ایک فوجی آفیسرکا نام لے کر اسے خاتون ڈاکٹر کی بے حرمتی کا مجرم قرار دیتے ہوئے اس کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کردیا لیکن اس تصادم کی بنیاد اس وقت پڑی جب سن دوہزار میں بلوچستان ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس نواز مری کو دن دھاڑے کوئٹہ کے ریڈزون میں قتل کرکے اس کا الزام نواب مری بیٹوں سمیت عائد کرکے نواب مری کی گرفتاری عمل میں لائی گئی وہ اس قتل کے الزام میں کئی سال تک ہدہ جیل کوئٹہ میں پابند سلاسل رہے۔

جبکہ اس واقعہ کی آڑ میں مقتدرہ نے جندران میں تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے اور اسے اپنے تصرف میں لانے کے لیے نواب مری کے سامنے اپنے شرائط پیش کردئیے لیکن جب نواب مری نے ان شرائط کو ماننے سے انکار کردیا تو بلوچستان کے محاصرے کو مزید مضبوط بنانے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ قلات کے مقام پر بے گناہ بلوچوں کو قتل کرکے انہیں را کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ جبکہ دو ہزار دو میں گوادر، سوئی اور کوہلو میں تین نئی فوجی چھاونیوں کے قیام سمیت گوادر میں میگا پروجیکٹس کے منصوبوں کے زور دار اعلانات کئے گئے جس کا بنیادی مقصد مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنا اور چھاونیوں کے ذریعے بلوچوں پر اپنے قبضے کو مزید مستحکم بنانا تھا۔
اربوں ڈالر کے ان بڑے میگا منصوبوں پر بلوچ عوام کو اعتماد میں لیا گیا نہ ان کے خدشات اور تحفظات کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ اس وقت کی حکومت نے بزور طاقت ان تمام منصوبوں کو عملی جامعہ پہنانے کا واضع اور برملا اعلان کردیا دوسری طرف گودار کے لیے جو ماسٹر پلان بنایا گیا اس نے مقامی آبادی سمیت پوری بلوچ قوم کو مزید گہری تشویش میں مبتلا کردیا ان تمام واقعات نے جلتی پر تیل کا کام دکھایا اور یہیں سے بلوچ قومی تشخص اور بلوچ ساحل و وسائل کو اسلام آباد کی دستبرد سے بچانے کی نئی عوامی تحریک نے جنم لیا۔
نواب بگٹی کی قیادت میں چار جماعتی بلوچ اتحاد(جمہوری وطن پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، بلوچ حق توار) نے ان نوآبادیاتی منصوبوں کے خلاف شہری سیاست کو منظم کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جبکہ نواب بگٹی نے ڈیرہ بگٹی میں ہی بیٹھ کر اس تحریک کی قیادت اور ترجمانی کے فرائض سرانجام دئیے۔ انہوں نے ملکی اور عالمی ذرائع ابلاغ میں بلوچ مقدمے کی بھرپور وکالت کی۔ جس کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کی سربرائی میں اس وقت کی مقتدرہ نے نواب بگٹی کا گھیرا تنگ کرکے انہیں پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا جہاں 26اگست2006 میں ایک بہت بڑے ملٹری آپریشن کے ذریعے انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت گلزمین کے لیے لڑتے ہوئے اپنی جان جانِ آفرین کی سپرد کردی، واضع رہے اس سے قبل مارچ2005 میں بھی ڈیرہ بگٹی میں نواب بگٹی کے قلعہ اور رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا جس میں ساٹھ سے زائد بے گناہ بلوچ مارے گئے۔ سو سے اوپر زخمی ہوگئے۔ مرنے والوں میں زیادہ تر ہندو برادری کے لوگ شامل تھے جبکہ نواب بگٹی بال بال بچ گئے۔
جنرل پرویز مشرف کی سربرائی میں اس وقت کی مقتدرہ میں یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ بلوچستان میں قومی حقوق، ساحل و وسائل کی نئی ابھرتی ہوئی عوامی تحریک کی اصل وجہ اور روح رواں نواب بگٹی ہی ہیں۔لہذا اسے مار کر ہی بلوچستان میں ان نوآبادیاتی منصوبوں کو عملی جامعہ پہنایا جاسکتا ہے، لیکن مقتدرہ کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا آج نواب بگٹی کی شہادت کو اٹھارہ سال بیت گئے ہیں لیکن بلوچستان میں امن کا قیام ممکن ہوسکا ہے نہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں بلکہ بلوچستان آج ماضی کی نسبت زیادہ مسائل کا شکار ہے۔
بنیادی انسانی حقوق کی پامالی نے ایک انتہائی سنگین بحران کی شکل اختیار کی ہے سیاسی و معاشی حقوق کی محرومیوں میں مزید اضافہ ہوچکا ہے۔ حکومت نام کی کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی ہر معاملہ ڈنڈے کی زور پر چلایا جارہا ہے پڑھے لکھے نوجوان ریاست سے انتہائی مایوس ہیں، ہر طرف احساس محرومی، غربت، نفرت، مایوسی، استحصال، ریاستی جبر اور نوآبادیاتی حکمرانوں کی بالادستی اور پالیسیوں کا راج ہے۔
نواب بگٹی کی بے رحمانہ قتل کے واقعہ نے بلوچستان میں موجودہ مزاحتمی تحریک جو پس منظر میں موجود تھی کو بھرپور ابھرنے کا موقع دے دیا۔ یہ تحریک کوھلو اور ڈیرہ بگٹی سے نکل کر اواران اور مکران تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی یوں نواب بگٹی کی شہادت نے بلوچستان کی سیاست پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کئے۔ بلوچ قومی تشخص اور بلوچ ننگ و ناموس کے لیے جان کے نظرانے دینے والے نواب بگٹی نے بلوچوں کو قربانی اور عملی جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’میرے اور مری کے مرنے کے بعد یہ تحریک یہیں ختم نہیں ہوگی نوجوان ضرور ہماری سیاسی ورثہ کی حفاظت کریں گے‘‘ آج بلوچ نوجوانوں نے اس سیاسی ورثہ کو جس انداز سے گلے لگایا ہے اس کی نظیر اس خطے کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مزید برآں بلوچ خواتین اور بچیوں نے تو بلوچ قومی تحریک کی ترقی پسندانہ نقطہ نظر اور انقلابی پن میں ایک نئی جدّت اور کشش پیدا کردی ہے۔ ان کی جرآت اور بہادری نے اس تحریک کو مزید توانائی فراہم کی ہے۔
چونکہ نواب بگٹی کی شہادت سے بلوچ جدوجہد کو ایک نیام عزم ملا اور اس نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔ اس لیے نواب بگٹی کی شہادت پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے انسانی حقوق کی ممتاز رہنما عاصمہ جہانگیر نے کہا ’’ کہ بلوچ دماغی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر پاکستان سے الگ ہوچکے ہیں۔ اب انہیں زبردستی پاکستان میں رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے آخر زبردستی انہیں کب تک پاکستان میں رکھا جاسکے گا اور کب تک اس طرح مسلئے کو چلایا جائے گا‘‘۔ دراصل نواب بگٹی کی قربانی اور عملی جدوجہد کے فلسفے سے بلوچ قومی جدوجہد کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا اور انہوں نے اپنی شہادت سے بلوچوں کو واضع پیغام دیا کہ وہ اسلام آباد کی غلامی کسی بھی صورت قبول نہ کریں۔ لفاظی اور بیان بازی کی بجائے عملی جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔ انہوں نے بلوچ فلسفہ مرگ پر من و عن عمل کرتے ہوئے اپنے لیے ایک باوقار موت کا راستہ چھن لیا اس لیے اس کی شہادت پر ممتاز بلوچ بزرگ رہنما سردار عطا اللہ مینگل نے کہا ’’کہ ہمیں نواب بگٹی کی شہادت پر رشک آرہا ہے۔ اس عمر میں اگر ایسی موت مل جائے تو اور کیا چائیے۔ نواب اکبرخان خوش نصیب ہیں کہ جنہوں نے اس عمر میں بلوچوں کے حقوق کے لیے لڑتے ہوئے اپنے سر کا نزرانہ دیا ہے‘‘
نواب بگٹی کی شہادت نے بلوچستان کا سیاسی اور سماجی منظرنامہ یکسر تبدیل کردیا، نوجوان نواب بگٹی کی فلسفہ کی طرف راغب ہوئے وہ برملا کہتے ہیں کہ نواب بگٹی کی قربانی محض داخلی خودمختاری یا چند پارلیمانی نشستوں کے لیے نہیں تھی وہ اسے ایک بہت بڑے اور اعلیٰ سماجی آئیڈیل سے منسلک کرتے ہیں۔ مابعد نواب بگٹی بلوچستان میں چار ریاستی انتخابات منعقد ہوئے ہیں لیکن بلوچ عوام اور خصوصا بلوچوں کے نوجوان اور پڑھے لکھے طبقے نے اسے مکمل مسترد کردیا ہے جس کے نتیجے میں بلوچستان میں انتخابات کے دن کرفیو کا سماں تھا یوں بلوچ ان جعلی انتخابات اور اسمبلیوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں دوری اور اعتماد کا نہ صرف فقدان ہے بلکہ ایک بہت بڑے بحران نے جنم لیا ہے۔ اس لیے مقتدرہ نے نواب بگٹی کی سیاسی وارثوں کے مقابلے کے لیے روایتی قبائلی سرداروں کی بجائے اب ایک نئی جعلی اور ڈمی قیادت سرفرازبگٹی ، صادق سنجرانی، قدوس بزنجو، ظہوربلیدی، انورالحق کاکڑ و دیگر کی شکل میں میدان میں اتار اہے جو اپنے اشتعال انگیز بیانات، تقاریر اور ٹوئٹ کے ذریعے اسلام آباد سے اپنی وفاداری کی سرٹیفکیٹ کو مستند بنانے کی کوشش میں گماشتے اور بروکر کا کردار ادا کررہے ہیں جو اس جنگ کے سب سے بڑے بینیفشریز بھی ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ مارکٹائی کا یہ سلسلہ جاری رہے تاکہ اسلام آباد کی منڈی میں ان کی مانگ زیادہ رہے۔
جبکہ دوسری طرف نواب بگٹی کی دو سابقہ اتحادی جماعتیں نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی درمیان میں سینڈویچ بنی ہوئی ہیں ایک طرف وہ بلوچ نوجوانوں کے غیض و غضب کا شکار ہیں جبکہ دوسری طرف اسلام آباد کی مقتدرہ کے لیے بھی یہ قابل قبول اور قابل بھروسہ نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ کھبی قدوس بزنجو کا ماتھا چومتے ہیں اور کبھی سرفرازبگٹی کو خوش کرنے کے لیے محفل موسیقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اس طرز عمل سے بلوچ سیاست اور سماج میں ان کے لیے سیاسی زمین اور اسپیس دن بدن کم پڑتا جارہا ہے۔ حالانکہ نواب بگٹی نے بھی انہی کی طرح پارلیمانی اور جمہوری سیاست کی تھی لیکن انہوں نے پی ایس ڈی پی کے لیے کھبی بھی کسی کا ماتھا نہیں چوما تھا نہ کسی سے پارلیمانی نشستوں اور اقتدار کی بھیک مانگی تھی۔
بحرحال اس وقت ان کی یہ دونوں سابقہ اتحادی جماعتیں ایک کھڑی اآزمائش سے دوچار ہیں ان کی مصلحت پسندانہ پالیسوں کی وجہ سے شہری و احتجاجی سیاست کی زمین بھی ان کے پاؤں کے نیچے سے کسک گئی ہے۔ ان کا کام اب صرف فوتگی پہ جانا، اظہار تعزیت کرنا، کسی واقعہ کی مذمت کرنا، ہاتھ باندھ کر یتیموں کی طرح اپیل کرنا رہ گیا ہے جبکہ بلوچ نفسیات اور سماجی و قومی ضروریات اس طرز سیاست کو قبولیت نہیں بخش رہے ہیں۔ اس لیے یہ بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور عوام بہت آگے نکل چکی ہے۔ حالانکہ پارٹیاں اور قیادت عوام کو لیڈ کرتی ہیں انہیں رہنمائی فراہم کرتی ہیں لیکن بلوچستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے یہاں عوام انہیں راستہ دکھادے رہی ہے کہ کیاکرنا ہے ۔ بلوچ سیاست اور عوامی جدوجہد کی شدت اور وسعت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ شاید مقتدرہ کو یہ پتہ نہیں تھا کہ زندہ اکبر بگٹی سے مارا گیا اکبر بگٹی زیادہ خطرناک ثابت ہونگے۔ اس لیے مقتدرہ نواب بگٹی کو قتل کرکے ہار گئی جبکہ نواب بگٹی مر کر بھی جیت گئے اور آج وہ بلوچوں کے قومی ہیرو ہیں اور بلوچ اپنے اس بزرگ لیجنڈری ہیرو کی موت پر ہمیشہ فخر کرتے رہیں گے۔
ذاکر بلوچ کا قتل ایک واضع پیغام
یوم آزادی سے صرف دو دن قبل 12 اگست 2024 کو ایک بلوچ نوجوان اور قابل سول سرونٹ ڈپٹی کمشنر پنجگور ذاکر علی بلوچ کو سرِ راہ انتہائی بے دردی کیساتھ قتل کیا گیا۔ اسے ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک منصوبہ بندی اور تسلسل کہا جاتاہے۔ دوہزار بیس کو یوم آزادی سے ایک دن قبل تربت میں حیات بلوچ کو دن دھاڑے والدین کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ ایک طرف ذاکربلوچ کی بہیمانہ قتل سے پورا بلوچستان سوگوار تھا جبکہ دوسری طرف پیرس اولمپک میں ایک معمولی کارکردگی دکھانے پر پنجاب کے رہائشی ارشد ندیم کو قومی ہیرو اور شیر پاکستان کا خطاب دیا جارہا تھا وہ کارپوریٹ میڈیا کی ٹاک شوز اور خبروں کی شہ سرخی بنی ہوئی تھی، سرکاری سطح پر اس پر کروڑوں روپے نچھاور کئے جا رہے تھے۔ وزیراعظم پاکستان نے اس کے اعزاز میں ایک پْرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے آٹھ کروڑ اور ایک انتہائی لگڑری گاڑی تحفے میں عنایت کردی گورنر پنجاب نے بیس لاکھ اور ایک گاڑی تحفے میں دے دی جبکہ گورنر سندھ نے اسے بیس لاکھ روپے بطور انعام، پوری فیملی کے لیے آئی فون اور والدہ کے لیے ستارہ امتیاز کی سفارش کردی، جبکہ دوسر ی طرف بلوچ ماؤں کو یوم آزادی کے موقع پر تحفے میں لاشیں اور تابوت دیے جارہے ہیں یہ واقعات اور پیغامات انتہائی غور طلب ہیں۔