|

وقتِ اشاعت :   August 31 – 2024

موسمیاتی تبدیلی (کلائمینٹ چینج) نے ایک آسیب کی طرح پوری دنیا کو جھکڑ رکھا ہے، دنیا کے بیشتر ممالک اس وقت موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہوئے ہیں، سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد بھی نہیں لیکن متاثر ہونے والے ٹاپ ٹین ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے.
موسمیاتی تبدیلی کی کئی اہم وجوہات ہیں اٹھارویں صدی میں جب یورپ صنعتی دور میں داخل ہوا تو ایندھن کے استعمال میں بطور تیل، کوئلہ وغیرہ کو شامل کیا، کارخانوں میں بے تحاشہ کوئلہ، تیل کو بطور ایندھن استعمال کرنے سے نہ صرف فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا بلکہ فضاء میں کاربن کی اخراج کے باعث اوزون کی سطح کو بھی کافی نقصان پہنچا، اور رفتہ رفتہ انسانی سرگرمیوں کے وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ ہوا جس سے درجہ حرارت کی شدت میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ بحیرہ منجمد شمالی، انٹارکٹکا میں گلیشیر اور برف کے پگھلنے کاعمل شروع ہوا اس کے ساتھ ساتھ جنگلات میں آگ لگنے نہ صرف فضائی آلودگی میں بتدریج اضافہ ہوا بلکہ جنگلی حیات بھی ناپید ہوتے گئے.
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے ارتھ ڈے پر اپنے پیغام میں خبردار کیا کہ حیاتی تنوع کا خاتمہ ہو رہا ہے اور دس لاکھ انواع معدومیت کے دھانے پر ہیں، انہوں نے دنیا سے کہا کہ فطرت کے خلاف یہ مسلسل اور غیر متعدل جنگ بند کی جائے.
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسسز کے مجموعی اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے کم ہے لیکن یہ انسان کے ہاتھوں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کی بہت بھاری قیمت ادا کررہا ہے.
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے موسمیات، ماحولیات ڈبلیو ایم او کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں شدید بارشوں اور سیلابوں سے پاکستان میں سترہ ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے ہیں جبکہ اس آفت نے تینتیس ملین لوگوں کو متاثر کیا رپورٹ میں واضح کیا کہ اس سیلاب سے مجموعی طور پر تیس ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا اور اکتوبر 2022 تک آٹھ ملین لوگ بے گھر ہوچکے ہیں.
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سال بھر میں خطرناک موسمی حالات نے بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے کے علاوہ پہلے ہی سے بے گھری کی زندگی گذارنے والے پچانوے ملین لوگوں میں سے بڑی تعداد کے لیے حالات بدتر بنادیے.
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں انسانی سرگرمیوں جیسے معدنی ایندھن کو جلانے اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے ماحول میں گیسوں کا توازن تبدیل ہوا جس سے عالمی درجہ حرارت میں زبردست اضافہ ہوا.
موسمیاتی تبدیلی نے پوری دنیا کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے اور اس کے اثرات دنیا کے کسی بھی گوشے میں محسوس کیے جاسکتے ہیں. موسمیاتی تبدیلیوں کی انسانی صحت پر اثرات. غذائی اجناس کی کمی، سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح، وبائی امراض کا پھیلاؤ، خشک سالی، سیلاب، گرمی سردی کی شدت میں اضافہ ہونا، موسم کے دورانیہ کا طویل ہو اور تغیر نما ہونا، بڑے بڑے گلیشئر کا پگھلنا وغیرہ ہے.
یقیناً موسمیاتی تبدیلی جہاں پوری دنیا کو متاثر کررہی ہے اور تمام دنیا سر جوڑے بیٹھی اس سے نمٹنے کے لئے مختلف پہلوؤں پر غور کر رہی ہے ایسے
میں پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھی ہنگامی بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کا پلان ترتیب دے اور کسی بھی ممکنہ آفات کا انتظار کرنے کے بجائے اس بات کو یقینی بنانے کہ ان آفات سے بچاو کس طرح ممکن ہے اور کونسے ایسے ذرائع استعمال کیے جائیں جن سے انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو.
کچھ تجاویز ذیل ہیں.
َگرین ھاوس کی گیسسز کے اخراج کو متوازن بنانے کے لیے درخت لگانا ضروری جتنے زیادہ درخت ہونگے اتنے ہی درجہ حرارت میں تیزی سے ہونے والے اضافے کو روک کر موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک ترین اثرات پر قابو پایا جاسکے گا.
کارخانوں میں استعمال ہونے والی ایندھن مثلاً کوئلہ، تیل وغیرہ کا متبادل تلاش کیا جائے تاکہ فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بننے والی آلودگی میں کمی لائی جاسکے.
جانی و مالی نقصان سے بچنے کے لیے سیلابی بہاو کے راستے میں رکاوٹیں نہ بناء جائے، بلکہ سیلابی ندی نالوں کی صفائی اور ان کی مضبوطی کے لیے عمدہ میٹریل استعمال کی جائے،
سیلابی پانی کو جمع کرنے کے لیے کنکریٹ سے بنے ہوئے چیک ڈیم بنائیں جائے تا کہ ان کے ٹوٹنے کا خطرہ کم سے کم ہو.
ہم کیا کر سکتے ہیں،
ہم عوام بھی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں
درخت لگا کر لوگوں میں شجر کاری کی اہمیت اجاگر کرنے سے
سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ یا سائیکل کا استعمال کر کے گاڑیوں پر انحصار کم کریں.
گھروں کی تعمیر میں ایسے میٹیریل کا استعمال کیا جائے جو کہ گرمی کی تپش کو کم کر سکے.
گوشت اور دودھ کے استعمال میں کمی کریں.
نوٹ، اس مضمون کی تیاری میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے موسمیات ڈبلیو ایم او کی رپورٹ سے چند مندرجات لیے گیے ہیں.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *