پشاور: وزیراعلی خیبرپختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ ہم جب بھی جلسے کا اعلان کرتے ہیں ہمیں این او سی نہیں دیا جاتا،
اب ہم این او سی کا انتظار نہیں کرینگے،احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے اس سے کسی صورت دستبردار نہیں ہونگے۔ وہ کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے اجلاس میں گفتگو کر رہے تھے۔ اجلاس سی پی این ای کے صدر ارشاد احمد عارف کی صدارت میں ہوا، جس میںبلوچستان میں آزادی صحافت کی تشویشناک صورتحال سمیت صوبہ خیبر پختونخوا میں سرکاری اشتہارات کی عدم ادائیگیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس میں سیکرٹری اطلاعات صوبہ خیبرپختونخوا ارشد خان نے بھی شرکت کی۔ صدرسی پی این ای ارشاد عارف ، سینئر نائب صدر انور ساجدی، سیکریٹری جنرل اعجاز الحق، نائب صدر سی پی این ای خیبر پختونخوا طاہر فاروق اور اراکین اسٹینڈنگ کمیٹی نے معزز مہمانان کو خوش آمدید کہا۔ بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے کہا خیبر پختونخوا حکومت آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے، ہم جمہوریت، آئین کی بالادستی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، جمہوریت کیلیے جاری جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاست سے محاذ آرائی نکل جائے ،سیاست کہاں بچتی ہے، ہم مریم نواز کی سلطنت میں داخل ، ہمیں اجازت(این او سی) نہیں دی جارہی ہے جس پر ہماری طرف سے بھرپور احتجاج کیا جائیگا۔ خیبر پختونخوا کے اخبارات و جرائد کے اشتہارات کے دیرینہ واجبات کی ادائیگی پر بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ دو سال قبل بھی سی پی این ای کے وفد سے ملاقات ہوئی تھی اس وقت بھی اشتہارات کے مسائل تھے اور مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ادائیگیوں کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا،
معاشی مشکلات ہیں بساط کے مطابق چل رہے ہیں ہم آپ کے مقروض ہیں، وفاق ہمارا مقروض ہے اور وفاق آئی ایم ایف کا مقروض ہے، ہماری ہر ممکن کوشش ہے کہ اس حوالے سے مسائل حل کیے جائیں۔ وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور سے بھی بات کی گئی ہے اور سیکرٹری اطلاعات بھی اس سلسلے میں کوششیں کررہے ہیں۔جمہوریت کے لیے ہم نے جو لڑائی، تنازعہ، مزاحمت پر مبنی جنگ شروع کی ہوئی ہے اس میں ہمارا ساتھ دیں ۔ ہماری توجہ سیاست سے نہیں ہٹتی، عمران خان کی جانب سے جو ہدایات آتی ہیں اس پر عمل کیا جاتا ہے،ہمیں اس جلسے کی این او سی(اجازت) نہیں دی گئی ،ہم مسلسل اسی کشمکش میں لگے ہوئے ہیں،ہماری طرف سے صحافت آزاد ہے تاہم اگر سیاست سے محاذ آرائی نکال دی جائے تو سیاست کہاں بچتی ہے۔
سیکریٹری اطلاعات ارشد خان نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے اخبارات کے اشتہارات کہ مد میں واجبات کی ادائیگی ایک بڑامسئلہ ہے اور اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اشتہارات اور بقایاجات کا جائزہ لے رہی ہے، مشکلات ایسے محکموں کے حوالے سے ہیں جو اب ختم ہوچکے ہیں، محکمہ بلدیات میں ڈسٹرکٹ کونسل غیر فعال ہوچکی ہے ، اسی طرح ماضی کے دیگر ادارے ہیں جن کے اشتہارات کا مسئلہ ہے، محکمہ اطلاعات میں الگ سے ریکوری ڈائریکٹر بنایا گیا ہے، اگر سی پی این ای کی وساطت سے متاثرہ اخبارات و جرائد اپنا کیس پیش کریں تو تیز رفتاری سے پیشرفت ممکن ہے۔
صدرسی پی این ای ارشاد احمد عارف نے بلوچستان میں پریس کی زبان بندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کسی صحافی سے ذاتی اختلاف یاپسند نا پسند کی بنیاد پر وفاقی یا کسی بھی صوبائی حکومت کا صحافی کو دھمکیاں دینا ، اخبارات و جرائدکے سرکاری اشتہارات روکنا یا واجبات کی ادائیگی میں غیر ضروری تاخیر کرناآزادی صحافت پر حملہ ہے۔
اس موقع پراسٹینڈنگ کمیٹی نے صوبہ بلوچستان میں جمہوری اقدار اور آزادی صحافت کے آئینی حق کی بحالی کے مطالبہ پر مبنی ایک قرارداد بھی منظور کی۔ انہوں نے خیبرپختونخوا کی حکومت سے بھی اخبارات و جرائد کے اشتہاراتی واجبات کی فی الفور ادائیگی کا مطالبہ کیا۔
جنرل سیکریٹری اعجاز الحق نے کہا کہ بلوچستان میں آزادی صحافت کی صورت حال پر وزیر اعلی بلوچستان سے ملاقات کی تجویز موصول ہوئی ہے جس پر عمل درآمد کے سلسلے میں غور کررہے ہیں۔
سینئر نائب صدر انور ساجدی نے کہا مجھے میرے اخبار ”روزنامہ انتخاب ” میں بے باک خبر نگاری پر دھمکیاں دی جاتی رہتی ہیں۔
کاظم خان نے کہا کہ دھمکیاں ملنا صحافی کا فخر ہے، ہمیں اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے۔
ڈاکٹر جبار خٹک نے کہا کہ بلوچستان میں آزادی صحافت کی صورت حال دن بہ دن بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے
جس کے لیے سی پی این ای کے پلیٹ فارم سے اقدامات کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ سندھ کمیٹی کے چیئرمین عامر محمود نے بذریعہ لنک اجلاس کو بتایا کہ سندھ کمیٹی کی دو میٹنگز کی گئیں۔ پہلے اجلاس میں وفاقی سیکریٹری اطلاعات عنبرین جان تشریف لائیں ،
انہوں نے اراکین سی پی این ای کے مسائل سننے کے بعد انھیں حل کرنے کی یقین دہانی کروائی، دوسرے اجلاس میں وزیر اطلاعات سندھ ندیم الرحمان نے شرکت کی اور صوبہ سندھ کے اخبارات و جرائد کے مسائل بغور سنے اور سیکریٹری اطلاعات کو ہدایت کی کہ وہ اخبارات و جرائد کے مسائل حل کریں۔ پنجاب کمیٹی کے صدر ایاز خان نے بتایا کہ ان کی کمیٹی کا ایک اجلاس ہوا جس میں ڈی جی پی آر پنجاب ڈاکٹر فیصل شہنشاہ نے شرکت کی اور درپیش مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تاہم حال ہی میں ان کی جگہ نئے ڈی جی پی آر کو تعینات کردیا گیا ہے
لہذا مسائل کے حل میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔ خیبر پختونخوا کمیٹی کے چیئرمین طاہر فاروق نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کمیٹی نے جون میں سیکریٹری اطلاعات کے پی ارشد خان سے ملاقات کے دوران اخبارات و جرائد کے دیرینہ واجبات کی ادائیگی کا مطالبہ کیا تھا تاہم یہ مسئلہ آج بھی حل طلب ہے۔ جوائنٹ سیکریٹری بلوچستان عارف بلوچ نے بتایا کہ صوبہ بلوچستان میں رواں سال پرنٹ میڈیا کے بجٹ میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اب تک تمام اخبارات کے واجبات ادا کردیے گئے ہیں۔ اسلام آباد کمیٹی کے چیئرمین یحیی سدوزئی بیرون ملک ہونے کی وجہ سے شرکت نہ کرسکے لہذا راولپنڈی / اسلام آباد کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی سامنے نہ آسکی۔
سی پی این ای کے فنانس سیکریٹری اور چیئرمین انڈومنٹ فنڈ مینجمنٹ کمیٹی سید حامد حسین عابدی نے اپنی کمیٹی کے اجلاس کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے فنڈ کی تفصیلات اور مستقبل میں اس فنڈ کے استعمال کے لیے موصولہ تجاویز و سفارشات سے آگاہ کیا۔
عبدالخالق علی نے سی پی این ای کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی کونسل کی ویب سائٹ پر جاری کرنے کی تجویز دی۔شکیل ترابی نے بذریعہ زوم لنک جوائن کیا
اور سی پی این ای کی جانب سے آزادی صحافت پر سیمینار کروانے کی تجویز دی۔ اجلاس میں ڈپٹی سیکریٹری جنرل غلام نبی چانڈیو،انفارمیشن سیکریٹری ضیاتنولی، جوائنٹ سیکریٹری سندھ، منزہ سہام، جوائنٹ سیکریٹری پنجاب وقاص طارق ، جوائنٹ سیکریٹری راولپنڈی اسلام آباد رافع نیازی سمیت سینئر اراکین ڈاکٹر جبار خٹک، مقصود یوسفی،شیر محمد کھاوڑ،محمود عالم خالد،تزئین اختر، مسعود خان،سجاد عباسی، ممتاز احمد صادق، میاں اسلم، فضل حق،سلمان خان، بشیر احمد، عبدالسمیع منگریو،اعتراز حسین، شہزاد امین،ڈاکٹر زبیر محمود، عامر شہزاد جدون اورتصور شاہ موجود تھے جبکہ نائب صدر پنجاب بابر نظامی، انتظار حسین زنجانی و دیگر شریک تھے۔