بلوچ سماج میں عورت کا مقام اس کی عزت اور کردار کے حوالے سے کئی ایک کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔
مختلف رسائل اور جرائد میںوقتاًفوقتاً مضا مین اور مقالے بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ ماہتاک سنگت میں عورت ایڈیشن کے ساتھ ساتھ وقتا ًفوقتا ًبلوچ سماج میں عورت کامقام اور کردار کے حوالے سے مضامین کی اشاعت اس بات کی غماز ہے کہ وہ اس عنوان کو کتنی اہمیت دیتے ہیں جب کہ ماضی میں اور قدیم بلوچ سماج میں شعر و سخن کے حوالے سے چند ایک خواتین جن کی تخلیقات بلوچی ادب میں شاہکار تخلیقات مانی جاتی ہیں ان میں مہناز ، سیمک حانی اور دیگر خواتین شامل ہیں ۔مہناز کی شاعری میں درد غم اور احتجاج کی گہرائی ملتی ہے۔
ترجمہ ۔۔۔۔ میں انجیر کے جوڑے پتوں والا وہ درخت ہوں جو بلند و بالا کہساروں پر اگتا ہے۔
جوگہری گھاٹیوں او روادیوں میں نشوونما پاتاہے۔ میں ایسے ہی باغ کی سروبلند قامت ہوں
میرا سر کسی ہوانے بھی نہیں ہلایا ۔
ساون بہاروں کی بوچھاڑ بھی میری جڑوں تک نہیں پہنچی۔ سیمک اپنے شوہر نتھا کی بہادرانہ موت کے حوالے سے کہتی ہیں۔
ترجمہ ۔۔۔دور بلندیوں پر دھندلی ہی گھٹا اٹھی ہے۔ کوہ ماواں جیسی بلند یوں پر
ابر یوں لگتا ہے کہ نتھا کی سفید پگڑی ہے
بوندوں کی دھا راس کے مشکبو بال ہیں ۔۔۔اور یہ اکا دکا بوندیں کہوتمہارے ترکش کی تیر ہیں ۔۔۔کڑکتی بجلی ہے یا تیری تیغ جو ہر دار
۔۔۔رعد ہے یا یہ نتھا کی بندوق کی گونج ۔۔
قدیم اور کلاسک شاعری میں خواتین سے منسوب ایسی خوبصورتی شاعری جوسینہ بہ سینہ ہم تک پہنچ جاتی ہے۔ بلوچی کلاسک شاعری کا خوبصورت حصہ ہیں ۔اسی طرح حانی سے مسنوب شاعری جو انہوں نے شہ مرید کی جدائی میں کہی ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حانی خود شاعرہ نہیں تھی لیکن یہ بھی کہاجاتاہے ۔حانی خود شاعرہ تھیں اور انہوں نے جوشاعری کی ہے وہ کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ ہمارے ہاں قدیم ہی سے رزمیہ بزمیہ اور ان کی احتجاج پر مبنی شاعری کا سلسلہ سینہ بہ سینہ سفر آتے ہوئے عصر حاضر تک پہنچا ہے اوریہ روایت آج بھی بھرپور انداز میں ادب کے اور اق پر موجود ہے اور آنے والی نسلیں اور آنے والا وقت اپنے علمی و ادبی خزانے سے استفاد ہ کرتے ہوئے یہ ضرور جان پائے گی کہ ہم ماضی میں علمی و ادبی سیاسی و سماجی اور زمینی حقائق کی کیا صورت حال تھی اور ادیب اور شاعری کس انداز میں اپنے منصب کی پاسداری کرتے رہے ہیں ۔ماضی میں شعر و سخن کے ساتھ ساتھ اس وقت جنگ کے میدانوں میں بھی شیر زال خواتین کی کارکردگی مثالی رہی ہے۔ کمبر کی والدہ ہو جواپنے بیٹے کی مزاحمت کا درس دیتے ہوئے میدان کا رزار میں روانہ کر کے فخر محسوس کر تی ہے یا ان کی شریک حیات گراناز جواپنے شوہر کو میدا ن جنگ سے پسپا ہونے پر دھتکا رتی رہے اور اس سے قطع تعلق کرتی ہے اندازہ لگائیں کہ اس وقت جب علم اور تعلیم کے کوئی ذرائع موجود نہیں تھے پھر بھی ہمارا سماج دانش حکمت او ر شعور کی دولت سے بے بھر ہ نہیں تھا۔ وہاں بلوچ اقدار اور کوڈ اس بات کی غماز ہیں کہ وہ ایک تہذیبی تسلسل سے گزرتے آئے ہیں گوکہ وقت حالات اور تغیر و تبدیل کی گرد میں بہت ساری کی چیزیں ہوگئی ہیں۔ جنہیں صاف کرنے اور سامنے لانے کی ضرورت ہے۔
کہتے ہیں کہ قدیم بلوچ سماج میں بچے تلواروں کے سائے میں ہی پرورش پاتے تھے۔ جنگ اور مزاحمت ان کی مزاج اور ثقافت کا حصہ ہوا کرتی تھی چنانچہ انہوں نے حملہ آو روں اور آزادی سے جینے کی امنگ میں ہمیشہ مزاحمت کی اور اس کے سامنے سر جھکانے کی بجائے سرکٹا نے کو ترجیح دی ۔جی ہاں مردوںکے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی بہادری اور مزاحمت کی مثالیں قائم کیں ۔
بلوچستان سیستا ن و بلوچستان میں انگریزوں کا دور اور زمانہ جنرل ڈائرکی تو سیع پسندانہ او ر ناپاک عزائم ، ظلم کے خلاف شیر ذال گل بی بی بلوچ کی دانشمندی بہادری حکمت عملی اس بات کی غماز ہے کہ ہماری خواتین نے ہمیشہ اپنے مردوں کے شانہ بشانہ جنگ کے میدانوں میں قابل فخر کردار اداکرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ہے بلکہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب سردار اور اس کے قبائل انگریزکی حکمت عملی کے سامنے بے بس نظر آئے تو گل بی بی بلوچ ایک کمانڈر کے طور پر سامنے آئیں اور اپنی حکمت عملی سے حالات کو سنبھا لنے میں کامیاب ہوگئیں اور جنرل ڈائر نے اس بات کا برملا اظہار کیاہے کہ میں نے ایسی بہادر ، دانشمند اور خوبصورت خاتون کبھی دیکھی ہی نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب The Rovidars of sashadمیں اس حوالے سے تفصیل سے بات کی ہے ۔جیسے میر گل خان نصیر نے بلوچستان کے سر حدی چھاپہ مار گوریلا جنگجوں کے نام سے ترجمہ کیاہے ۔جنرل ڈائر کی سرگذشت 1921ء میں لندن میں شائع ہوئی تھی جس میں بلوچستان میں انگریزوں کی حکمت عملیاں مکار یاں بلوچوں کی مزاحمت اور گل بی بی بلوچ کے حوالے سے کافی معلومات شامل ہیں ۔
اسی ضمن میں دہلی کی جنگ بھی قابل ذکر ہے۔ جس میں چاکر رند کی بہن بانک بانڑی کی بہادری اور حکمت عملی تاریخ کے اوراق میں درج ذیل ہیں۔ اس وقت میر چاکر خان حیات تھے لیکن پیراسالی کے باعث سرگرم نہیں تھے۔ کہتے ہیں کہ دہلی کی جنگ میں بلوچوں نے ہمایوں کی مدد کی تھی ہمایوں بلوچوں کی حکمت عملیو ں سے بخوبی واقف تھا۔ کہتے ہیں کہ جنگ کے دوران بلوچ لشکر کو ہمت دلانے اور بے جگری سے لڑنے کی ترغیب دینے میں بانک بانٹری کی حکمت عملی کا بڑا ہاتھ رہا اور مخالفین کو شکست سے دوچار کرکے ہمایوں مغل دہلی کے تخت پر تخت نشین ہوگئے تھے ۔جس پر انہوں نے بلوچوں کو کئی ایک اعزازات سے نواز تے ہوئے جاگیریں بھی عطا کیں ۔
جب کہ بلوچوں کی ایک بڑی تعداد دہلی اور ہندوستان کے دیگر شہروں میں سکونت پذیر ہوکر آج بھی بلوچ ہونے پر فخر کرتی نظر آتی ہیں۔
بانک بانڑی ہویا گل بی بی بلوچ بلوچ روایات ،ا قدار اورحریت پسندی کے حوالے سے سماج ہماری اور خواتین میں رول ماڈل کے طور پر یاد کی جاتی ہیں۔
اگر آج کے بلوچ سماج پر ایک طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو علم وادب کے میدان میں خواتین کا حصہ بتدریج بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ نظم ، نثر ، تحقیق اور تراجم کے حوالے سے ان کی نگار شات اور کتابیں سامنے آرہی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ حالات واقعات اور زمینی حقائق پر مبنی مواد ہی کا انتخاب کرتی ہوئی نظر آتی ہے اور یہ ایک حوصلہ افزاء بات ہے کہ کیونکہ ہرکام کے لیے علم و شعور کی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ دوسری طرف ہمارے ہاں سیاسی سماجی ، ثقافتی انسانی حقوق انکار اور احتجاج کے حوالے سے جوایک لہر چلی آرہی ہے۔ جس نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کواکھٹا کئے ر کھا ہے۔ اس میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی ایک بڑی تعدا د محوسفر ہے بلکہ یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ اس موومنٹ کو ڈاکٹر ماہ رنگ اور ان کے ہم سفر خواتین ہی آگے لے کے جارہی ہیں جس نے اس ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک حقائق اور حقیقت پر مبنی حالات کی بھر پور انداز میں عکاسی کی ہے۔ اسی سلسلے میں نظم و نثر پر مبنی مواد نے بلوچی ادب میں بھی گراں قدر اضافہ کیا ہے اور لوگ یہ جان پائیں گے کہ قدیم ہویا جدید بلو چ سماج ، وہاں بلوچ خواتین اپنی مزاحمت ، انکار اور احتجاج کی روایت کو ساتھ لئے مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کرتی آئی ہیں۔