|

وقتِ اشاعت :   October 25 – 2024

کوئٹہ:بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات سابق وفاقی وزیر آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ نے پارٹی سربراہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان، موجودہ اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی سمیت سابق اراکین صوبائی اسمبلی کے خلاف دہشت گردی کے مقدمہ درج کرنے کی مذمت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ہماری جماعت اور ہمارے خلاف عملاً مارشل لاء نافذ ہے۔

ان واقعات کے خلاف احتجاجی شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 27 اکتوبر کو بلوچستان بھر میں پریس کلبوں کے سامنے احتجاجی مظاہرہ ہوگا، 30 اکتوبر کو صوبے میں شٹر ڈائون اور 2 نومبر کو بلوچستان بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی جائے گی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے سابق وفاقی وزیر میر محمد ہاشم خان نوتیزئی، سابق اراکین صوبائی اسمبلی شکیلہ نوید دہوار، ٹائٹس جانسن، موسیٰ جان بلوچ، غلام نبی مری، جاوید بلوچ، صمند بلوچ، ملک محی الدین سمیت دیگر کے ہمراہ جمعہ کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر، رکن قومی اسمبلی، سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان، رکن صوبائی اسمبلی اور سابق اراکین اسمبلی سمیت پارٹی کے مرکزی رہنمائوں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات پر مشتمل ایف آئی آر درج کرکے سابق رکن اسمبلی کو گرفتار کیا گیا۔

ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کرکے ہمیں یہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ ہمیں بلوچستان کے لوگوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح پارٹی کے خلاف سیاسی اور پارلیمانی جمہور کی سیاست کی پاداش میں ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں، اس سے نفرتوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

کیونکہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے سابق آمر ایوب خان اور ضیاء الحق کے مسلط کردہ لوگوں کے مائنڈ سیٹ کو آج بھی بلوچستان کے حوالے سے تبدیل نہیں کیا گیا۔

یہ لوگ ظلم و جبر اور زبردستی کے ذریعے ہر فیصلہ بلوچستان پر مسلط کرکے بلوچستان کو ظلم، جبر اور طاقت کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو ان کی خام خیالی ہے۔

کیونکہ سابق فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان اور ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کی شکل میں سول ڈکٹیٹر ہم پر مسلط کیے۔

اور سابق آمر پرویز مشرف نے بھی بلوچستان پر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے صوبے کو فتح کرنے کی کوشش کی، لیکن آج اس کا نام و نشان نہیں۔

حکومت نے دہشت گردی کی دفعات پر مشتمل ایف آئی آر درج کرکے عالمی سطح پر اپنی بدنامی مول لی ہے۔

کیونکہ ہماری جماعت راہشون سردار عطاء اللہ مینگل کے وژن اور افکار کو بڑھاتے ہوئے ان کے فرزند پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل ملک میں سیاسی اور جمہوری سیاست کو آگے لے جا رہے ہیں۔

لیکن دہشت گردی کا مقدمہ درج کرکے ہتھکڑی لگا کر لوگوں کو عدالت میں پیش کرنے کا مقصد ہماری تذلیل کرنا ہے۔

پریس کانفرنس کے ذریعے خیالات کا اظہار کرنا ہمارا حق ہے۔

ہارس ٹریڈنگ کا راستہ روکنا ہمارا حق ہے جس کی پاداش میں یہ مقدمہ درج کیا گیا۔

ہمارے 2 سینیٹرز کو چھبیسویں آئینی ترمیم میں ووٹ دلوانے کے لئے چار، پانچ روز تک عقوبت خانوں میں رکھا گیا۔

پھر پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔

1972-73ء میں سول ڈکٹیٹر ذوالفقار علی بھٹو نے آپریشن کیا اور 5 آپریشن صوبے میں ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے 4 ہزار سے زائد نوجوانوں کے نام فورتھ شیڈول میں ڈال کر ان کے آئی ڈی کارڈ بلاک کرکے تعلیم کے حصول کی بجائے تھانوں اور عدالتوں میں حاضری کا پابند بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مشرف کے آمرانہ دور میں ہماری جماعت کے سیکرٹریٹ جنرل حبیب جالب بلوچ سمیت 95 ساتھیوں کو شہید کیا گیا، لیکن ہم نے جمہور کی سیاست نہیں چھوڑی۔

2013ء اور 2018ء میں ہماری جماعت نے پارلیمان سمیت ہر فورم پر بلوچستان کے حقوق کے حصول اور مسائل کے حل کے لیے موثر آواز اٹھائی اور اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

حالیہ مقدمات اور نوجوانوں کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے کے خلاف جماعت نے احتجاجی شیڈول کا اعلان کیا ہے۔

27 اکتوبر اتوار کو کوئٹہ سمیت بلوچستان، کراچی، ڈیرہ غازی خان، جیکب آباد، شہداد کوٹ کے پریس کلبوں کے سامنے احتجاجی مظاہرہ ہوگا۔

30 اکتوبر بدھ کو بلوچستان بھر میں شٹر ڈائون ہڑتال ہوگی، جس میں تاجر برادری ہڑتال کو کامیاب بنا کر وطن دوستی کا ثبوت دیں۔

2 نومبر ہفتہ کو بلوچستان کی قومی شاہراہوں، کوئٹہ، تفتان، کوئٹہ لورالائی، کوئٹہ ژوب، قلعہ سیف اللہ سمیت دیگر قومی شاہراہوں پر پہیہ جام ہڑتال کی جائے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم کی مخالفت اور عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے میں حکومت کا ساتھ نہ دینے کی پاداش میں ہمارے خلاف یہ اوچھے ہتھکنڈے اور انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ جملہ بلوچ مسائل کا حل نہیں، ہم نے ہمیشہ اس کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا ہے۔

لیکن حکومتی اقدام کی وجہ سے نفرتوں میں اضافہ ہوا ہے۔