|

وقتِ اشاعت :   October 27 – 2024

مولانا نیاز محمد درانی 1939ء میں پیدا ہوئے، وہ ایک عالم دین، اسلامی سکالر، سیاست دان، سماجی کارکن اور قبائلی رہنما تھے۔ انہوں نے مولانا عبداللہ اجمیری، علامہ جلال الدین غوری اور مولانا عبدالغفور بلوچ جیسے عظیم علماء سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے علاوہ بر صغیر کے عظیم عالم، مولانا ادریس کاندھلوی کی شاگردی کا بھی شرف حاصل کیا۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد 1960 کی دہائی کے اوائل میں پاکستان آرمی میں بطور مذہبی استاد شامل ہوئے۔ بعد ازاں آرمی چھوڑ کر جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے میدان سیاست میں قدم رکھا۔ 70 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو (پاکستان پیپلز پارٹی) کی حکومت کے خلاف سیاسی تحریک اور قادیانیوں (جنہیں 1973 کے آئین میں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے) کے خلاف تحریک ختم نبوت میں انہوں نے کردار ادا کیا۔ وہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف بھی کھڑے ہوئے اور جمعہ اور عید کے خطبات میں کھل کر مارشل لاء کی مخالفت کی (خان، 2012)۔
انہوں نے 1990 کی دہائی میں پاکستان کی مرکزی چاند دیکھنے والی کمیٹی کے رکن کے طور پر خدمات انجام دیں اور اسلامی قانون اور فقہ کے مسائل پر پاکستان کی شریعت کورٹ آف سپریم کورٹ کو علمی مشورے بھی دیئے۔ وہ ایک غیر معمولی عوامی خطیب اور مصنف تھے۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو کے دور میں اسلام میں عورت کی حکمرانی کا فتویٰ (اسلامی حکم) دیا، جب پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے عورت کی حکمرانی کو غیر اسلامی قرار دیا اور مولانا نیاز محمد نے اسے اسلام کے مطابق قرار دیا۔ “عورت کی سربرائی کی شرعی حیثیت ” کتاب کی شکل میں چھپ چکی ہے۔ مولانا کی اسلامی سیا سات پر اردو اور پشتو میں دو اور کتابیں زیر طبع ہیں۔ ان کے حاشیے، نوٹس، مضامین اور کچھ تقاریر محققین کے لیے اچھا مواد ہے۔علوو ازیں، مولانا درانی نے متعدد مسائل پر فتاوی جاری کیئے۔
مولانا نیاز محمد درانی نہ صرف ایک سیاست دان تھے بلکہ ایک بااثر پشتون قبائلی رہنما بھی تھے۔ ان کو قرآن، حدیث، اسلامی قانون اور فقہ، اسلامی تاریخ اور پشتونوں کی تاریخ پر کمان تھی (رانا 2012؛ خان 2012)۔
کچھ لوگ مولانا نیاز محمد درانی کو پشتون قوم پرست تصور کرتے تھے جنہوں نے پشتون قبیلے کے اتحاد میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ 1979 کے افغان انقلاب کے خلاف اس وجہ سے تھے کہ اس سے افغانستان میں دیرپا جنگ ہو گی۔ انہوں نے نہ صرف امریکی مداخلت کی مخالفت کی بلکہ افغانستان میں سوویت جارحیت کے خلاف بھی آواز اٹھا ئی۔
جہاں ان کے افغان مجاہدین کے لیڈروں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے وہیں افغان قوم پرستوں اور سوشیلسٹ لیڈروں کے ساتھ بھی ان کے رابطے تھے۔ پاکستان میں بھی ان کی خان عبدالولی خان، محمود خان اچکزئی، ملک عبدالصادق خان کاسی شہید، خان عبدالغفور خان درانی ، حاجی غلام سرور یاسین زئی ، حاجی مرزا خان ناصر ، حاجی امین اللہ خان اچکزئی ، منشی کریم خان شیرانی ، حاجی خدائے نظر خان بڑیچ ، ڈاکٹر عبدالمالک کاسی، لالا فضل الرحمن ملاخیل،اسماعیل درانی، بریگیڈئر (ر) رحیم درانی ، حاجی شین خان اچکزئی، عبدالرحیم مندوخیل، ملک عثمان کاسی، سا ئیں کمال خان شیرانی اور بلوچ قوم پرست رہنماؤں بشمول ، نواب غوث بخش رئیسانی اور مولانا غلام حیدر نوشکوی کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔
وہ شروع سے ہی پشتون قومی جرگہ میں سرگرم رہے۔1978 میں، پاکستان کے کچھ پشتون قبائلی رہنمائوں، جن میں نواب تیمور شاہ جوگیزئی، سردار خیر محمد، سردار محمد عثمان جوگیزئی، سردار خیر محمد ترین، ملک سرور خان کاکڑ، ملک عصمت اللہ خان مندوخیل، سردار باز محمد جوگیزئی، سردار جیلانی خان عشے زی، ملک عبدالباقی بٹیزئی، مولانا رحمت اللہ مندوخیل، سردار دین محمد ناصر، ارباب محمد عمر کاسی، ملک گل حسن کاسی، ملک فیض محمد کاسی اور مولانا نیاز محمد درانی شامل تھے نے پشتون جرگہ تشکیل دیا (جنگ، 31 دسمبر 1978)۔ اس جرگے نے قبائلی تنازعات کے حل میں بہت فعال کردار ادا کیا اور پشتون قوم پرستی کا ایجنڈا ترتیب دینے میں بھی سرگرم رہا۔ لیکن، جرگہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا اور 1985 کے بعد غیر فعال ہو گیا۔
2 دسمبر 1980 کو اسپن بولدک میں مولانا نیاز محمد درانی کی سربراہی میں درانی قبائل (پنجپائی قبائل) کا جرگہ منعقد ہوا۔ جرگہ میں درج ذیل قبائلی سرداروں نے شرکت کی: اسپن بولدک سے وکیل عبدالصمد خان، ہلمند سے امان اللہ خان، پنجوائی سے مولوی محمد دین، مہوند سے حاجی گل خان، اسپن بولدک سے حاجی صالح محمد، موسیٰ قلعہ سے حاجی سید محمد، اور سے۔ افغانستان کے دوسرے صوبیںسے قبائیلی راہنمائو ں نے شرکت کی۔ اس جرگے کا مقصد افغان جنگ کے دوران پشتونوں بالخصوص درانی قبائل کے لیے رہنما خطوط مرتب کرنا تھااور قوم کو فساد سے محفوظ کرنا تھا۔
پشتون قومی جرگہ (“پشتون قومی کونسل”)۔ نواب ایاز خان جوگیزئی نے 1990 کی دہائی کے اوائل میں پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کی حمایت میں کوئٹہ میں بلایا تھا۔ بدلتے ہوئے سیاسی اور علاقائی حالات کے درمیان پاکستان کے پختونوں کے لیے ترجیحات طے کرنے کے لیے یہ جرگہ کئی ہفتوں تک جاری رہا۔ مولانا نیاز محمد درانی نے جرگے میں فعال اور کلیدی کردار ادا کیا۔
افغان سرحدی علاقے سرلٹھ میں مقامی پرکانی (بلوچ ) و بڑیچ (پشتون) قبائل کے درمیان خونی تنازعہ چیف آف ساراوان نواب غوث بخش رئیسانی مرحوم اور مولانا نیاز محمد درانی کی ثالثی میں حل ہوا۔ بلوچستان سے اغوا ء ہونے والے سرکاری ملازمین بشمول لیکچرر ، اسسٹنٹ پروفیسر کی افغانستان سے واپسی کے لئے ایک جرگہ مولانا نیاز محمد درانی کی سربراہی میں افغانستان کے صوبہ غزنی کے علاقے اوبند گیا اور اوبند میں حاجی صاحب خان عرف چاپئی ترکئی سے کامیاب مزاکرات کے بعد تمام مغویوں کو واپس لایا۔ چیف آف ساراوان نواب غوث بخش رئیسانی مرحوم پشتون قبائل کے تنازعات مولانا نیاز محمد درانی کو حل کے لئے بھیجتے 1985 کے بعد کے عرصے میں سندھ کے مختلف شہروں بشمول کراچی و حیدر آباد میں جاری مہاجر -پشتون لسانی فسادات کے بعد بلوچستان سے سرکردہ پشتون رہنماؤں کا ایک نمائندہ جرگہ کراچی و حیدر آباد کے پشتونوں سے اظہار یکجہتی کے لئے سندھ مولانا نیاز محمد درانی کی سرکردگی میں گیا
مولانا درانی نے 1988ء کے عام انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام کے مقابلے میں پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کی حمایت کی۔ حالانکہ افغان سیاست کے حوالے سے وہ پشتونخواہ میپ کی پالیسی کے خلاف تھے۔ جمعیت علمائے اسلام نے پشتون علاقوں میں پشتونخواہ میپ اور اے این پی کو پرچم اور خلق پارٹیوں کا تسلسل قرار دے کر فتوے جاری کئے۔ مولانا درانی نے ان کی مخالفت کی اور عوام کو تلقین کی کہ وہ ووٹ یہ دیکھ کر کاسٹ کریں کہ کونسا امیدوار ان کے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔ ووٹ کو مذہب کی بنیاد پر کاسٹ نہ کریں۔ نہ جمعیت علمائے اسلام حقیقی معنوں میں اسلامی احکام کے نفاذ کے لیے متحرک ہے اور نہ قوم پرست کوئی ٹھوس نظریاتی بنیادیں رکھتے ہیں۔ جمعیت علماء ووٹ اسلام کے نام پر ایوانوں تک پہنچنا چاہتی ہے۔ 1988ء کے انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام کا انتخابی نشان کتاب تھا ، جس کو انہوں نے قرآن سے تشبیہ دی جس کی مولانا درانی نے مخالفت کی ۔
1988ء میں ارباب ہاؤس قلعہ کانسی میں مولانا درانی اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ خان عبد الولی خان کی ملاقات ہوئی، جس میں افغانستان اور پاکستان کی سیاست ، پاک افغان تعلقات اور افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ خان عبد الولی خان مولانا درانی کی سیاسی بصیرت سے کافی متاثر ہوئے اور ان کو اے این پی میں شمولیت کی باقاعدہ دعوت دی جس کو مولانا نے قبول نہیں کیا۔ کیونکہ وہ اے این پی اور پشتونخواہ میپ کے نظریات اور افکار سے اختلاف رکھتے تھے ، مگر ان کی کوشش تھی کہ قوم پرست تنظیمیں افغانستان میں امن کے قیام کے لیے کردار ادا کریں۔
مولانا نیاز محمد درانی افغانوں کو متحد دیکھنا چاہتے تھے۔طویل جنگ نے افغان ملت کو تباہ کر دیا تھا۔ لاکھوں افغان گھر بار چھوڑ کر پاکستان میں مہاجرین کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ اور نظریاتی کشمکش کے نتیجے میں افغانستان جنگ کا مرکز بن گیا تھا ۔ جغرافیہ کی ستم ظریفی کہ افغان ایک ایسے خطہ میں آباد ہیں جو جغرافیہ کے لحاظ سے عالمی قوتوں کے درمیان جنگ کا میدان ٹھہرا۔ اسی طرح بے پناہ قدرتی وسائل ہونے کیوجہ سے افغان وطن ہمیشہ اغیار کے حملوں کی زد میں رہا ہے۔افغان فطرتاً پر امن قوم ہیں مگر ہمسایہ طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے وہ جنگ پر مجبور ہیں۔ کیونکہ فطری طور پر وہ آزاد واقع ہوئے ہیں۔ مولانا سمجھتے تھے کہ مستقبل کی جنگیں ، جو شاید امریکہ ، روس اور چین کے مابین لڑی جائیں گی، کے لئے پھر سے افغان سرزمین کو استعمال کیا جائیگا۔ افغانوں کو چاہیے کہ وہ خود کو ہر قسم کی سازشوں سے محفوظ رکھیں۔ اسلام ان کا دستور حیات ہے۔ وہ متحد ہوں گے تو ہر قسم کی شر انگیزی سے محفوظ رہیں گے۔ اور نسلی تعصبات کو پس پشت ڈال کر اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے افغان ملت کو مضبوط بنائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *