|

وقتِ اشاعت :   November 5 – 2024

اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی جاری کردی اور آئندہ دو ماہ کیلئے شرح سود میں ڈھائی فیصد کمی کردی۔اسٹیٹ بینک کے مطابق زری پالیسی کمیٹی نے اپنے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 250 بیسز پوائنٹس کم کرکے 15 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ مہنگائی توقع سے زیادہ تیزی سے کم ہوئی ہے اور اکتوبر میں اپنے وسط مدتی ہدف کے قریب پہنچ گئی ہے، آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کے نئے پروگرام کی منظوری دی جس سے غیر یقینی کیفیت کم ہوئی ہے اور مجوزہ بیرونی رقوم کی آمد کے امکانات بہتر ہوئے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق اکتوبر میں کیے گئے سرویز سے صارفین اور کاروباری اداروں دونوں کے اعتماد میں بہتری اور مہنگائی کی توقعات میں کمی ظاہر ہوئی، پہلے چار ماہ کے دوران ٹیکس وصولی ہدف سے کم رہی۔ موجودہ شرح سے معاشی استحکام کو تقویت ملے گی اور پائیدار بنیاد پر معاشی نمو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھاکہ اسٹیٹ بینک نے بھی شرح سود میں 250 پوائنٹس کی کمی کردی، 250 پوائنٹس کی کمی سے شرح سود 17.5 سے 15 فیصد پر آنا خوش آئند ہے جس سے شرح سود میں کمی سے کاروباری سرگرمیاں، برآمدات اور روزگارکے مواقع بڑھیں گے۔ بہرحال مہنگائی کی شرح میں کمی کے محض دعوے ہی کئے جارہے ہیں۔

ہفتہ وار بنیادوں پر سالانہ مہنگائی کا پارہ 14 اعشاریہ 45 فیصد ریکارڈ کیا گیا ،ایک ہفتے میں 12 اشیاء مہنگی 12 ہی سستی ،27 کی قیمتیں مستحکم رہیں۔ انڈے فی درجن 10 روپے 47 پیسے مہنگے ہوئے، لہسن فی کلو 17 روپے 56 پیسے مہنگاہوا، ایل پی جی کا گھریلو سیلنڈر 60 روپے 68 پیسے مہنگا ہوا،جلانے کی لکڑی،تازہ دودھ ،دہی،بیف بھی مہنگی ہونے والی اشیاء میں شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کے دوران ٹماٹر فی کلو 16 روپے 43 پیسے سستے ہوئے، گزشتہ ہفتے میں چکن فی کلو 45 روپے 86 پیسے سستا ہوا، چینی، پیاز،گڑ،بیس کلو آٹے کا تھیلا سستی ہونے والی اشیاء میں شامل ہیں جبکہ چاول،بریڈ،سگریٹس،کوکنگ آئل سمیت 27 اشیاء کی قیمتیں مستحکم رہیں۔

ان اعداد و شمار کی رو سے بھی مارکیٹوں میں اشیاء کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔عام مارکیٹوں میں کوئی چیک اینڈ بیلنس حکومتی سطح پر نہ ہونے کی وجہ سے مافیاز عوام کومن مانی قیمتوںپر اشیاء فروخت کررہے ہیں۔ ملکی معیشت کی بہتری کے ثمرات عوام کو براہ راست اب تک نہیں پہنچ ر ہے۔

عام لوگوں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے بلکہ وہ معاشی مسائل سے دوچار ہیں۔ بیروزگاری کی شرح بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ،سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمتیں نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر نوجوان بیروزگار اور معاشی پریشانی کا شکار ہیں جس کی ایک واضح مثال شہریوں کی بڑی تعداد کا غیر قانونی طور پر بیرونی ممالک جانے کا رجحان ہے جو اس وقت رپورٹ ہوتا ہے جب سمندری حدود میں کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے اور یہ اس میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

بہرحال معاشی مسائل سے شہریوں کو نجات دلانا اور ریلیف فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے، مہنگائی اور بیروزگاری اس وقت دو اہم مسئلے ہیں جنہیں ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *