|

وقتِ اشاعت :   3 hours پہلے

چشیں قاضی ئے کہ مبارک انت
پدامشکلیں کہ ودی بہ بیت
مبا رک قاضی کو رخصت ہوئے ایک سال ہوگیا ۔وہ 16ستمبر 2023ء کو اس جہان فانی سے رحلت کرگئے تھے۔ ان کی رحلت کو علمی وادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ عوام اور مظلوم و محکوم طبقوں نے ایک بڑے سانحہ کے طور پر دیکھا اور محسوس کیا ۔اس حوالے سے ان کی یاد میں ان کی زندگی اور فکر و فن پر گفتگو اور تحریری طور پر کئی ایک تقاریب اور دیوان منعقد کئے گئے۔ رسائل اور جرائد میں اشاعت کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی شائع کی گئیں جو قاٖضی شناسی کے حوالے سے ابتدائی کام کے طور پر دیکھے جائیں گے۔ یہ سارا مواد بلوچی کے ساتھ ساتھ اردو ، انگریزی اور براہوئی میں محفوظ کیا جاچکاہے۔
اسی طرح پہلی برسی کے موقع پر ان کی یاد میں کئی ایک تقاریب اور ادبی سیمینارز اس بات کی غماز ہیں کہ وہ لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں ۔لوگ ان کے فکر اورفن کے شیدائی ہیں۔ اگر یہ کہاجائے تو یقینا غلط نہیں ہوگا کہ قاضی کے بغیر بلوچی ادب میں شعر و سخن کا باب کسی بھی طرح سے مکمل نہیں ہوپاتا ،جہاں ان کے پڑھنے، سننے اور پسند کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد مو جود ہے۔ یوں قاضی و ہ خوش قسمت ادیب اور شاعر ہیں جنہیں ان کی زندگی میں ہی ایک معتبر اور مقبول شاعر کے طور پر پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان کی شاعری اور فن کے مختلف پہلوئوں پر اظہار را ئے پیش کرنے والوں کی کمی نہیں رہی۔ اب جب کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے تو ان کے حوالے سے علمی و ادبی اور تنقیدی نکتہ نظر سے بھی کام کی ابتداء ہوچکی ہے۔ جوایک خوش آئندبات ہے۔ کسی بھی زبان سے متعلق معتبر شخصیات ہی کو یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے فکر اور فن پر گفتگو اور محبت و مباحثہ کیا جا تا ہے۔ کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ بلوچی جدید ادب میں چند ایک ادیب او ر شاعر ایسے ہیں جنہیں ان کے پیدائش یا برسی پر کم و بیش تو اتر کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ ان میں میر گل خان نصیر ، سید ظہور شاہ ہاشمی ، عطاشاد شامل ہیں۔ چند ایک اور معتبر اور نامور ادیب اورشاعربھی ہیں ،جنہیں وقتاً فوقتاً یاد کیا جا تا ہے اور ان کے بارے میں لکھا بھی جاتاہے ۔اب ان میں مبارک قاضی بھی شامل ہوگیا ہے بلکہ قاضی شناسی کا یہ نہ تھمنے والا سلسلہ جاری و ساری ہی رہے گا۔ اسی حوالے سے 12اکتوبر کو دیگر کے علاوہ بلوچستان اکیڈمی آف لٹر یچر اینڈریسرچ کے زیر اہتمام مبارک قاضی فکر اور فن کے نام سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ان کی شخصیت فکر اور فن کے حوالے سے مقالے پڑھے گئے ۔پینل ڈسکشن ہوئی، جس میں واجہ غنی پرواز، پر وفیسر ڈاکٹر عبد الصبور بلوچ ،ڈاکٹر غفور شاد اور ساجد نور شامل تھے ۔شنید ہے کہ آدینک ، سیر یز کا تازہ شمارہ بھی قاضی نمبر ہوگا جو قاضی کی شخصیت فکر اور فن کے حوالے سے ترتیب دیا گیا ہے جو یقینا ایک یاد گار نمبر ہوگا۔
قاضی شناسی میں ان کے بلوچی کلام کو اردو کے قالب میں ڈالنے کا کام بھی احسن طریقے سے انجام دیا جا رہا ہے ۔گوکہ منظوم ترجمہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے ۔جہاں اصل کی ماہیت فنی ، ثقافتی ، نزاکتوں اور تراکیب کا خصوصی طور پر خیال رکھنا ہوتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ دونوں زبانوں پر اچھی خاصی گرفت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی سلسلے میں بلوچی سے اردو تر جمہ وطن مرادوں کی سرزمین ہے (مبارک قاضی کی منتخب نظمیں )معروف شاعر میر ساگر (جوبلوچی اور اردو پر یکساں گرفت رکھتے ہیں )اردو کے قالب میں بڑی عمدگی سے ڈالے ہیں۔ بلوچستان اکیڈمی کے زیر اہتمام شائع ہونے جارہی ہے۔ قاضی کی شاعری کے حوالے سے غفور شاد کی ایک کتاب کے ساتھ ساتھ معروف مترجم فضل بلوچ کی کتاب EVERy VERSE FOR YOUبھی بلوچستان اکیڈمی کے زیر اہتمام شائع ہونے جارہی ہے ۔جس میں قاضی کی بلوچی شاعری کو انگریزی کے قالب میں ڈالا گیا ہے۔
اسی ضمن میں بلوچستان اکیڈمی کے زیر اہتمام مبارک قاضی کی شاعری کا براہوئی ترجمہ ’’ ھانی کنا لما وطن ‘‘ کے نام سے معروف ادیب اور مترجم غمخوار حیات نے کرکے ایک بہت ہی اہمیت کا حامل کا م سرانجام دیا ہے۔ جس سے براہوئی زبان و ادب سے متعلق ادیب اور شاعر بڑی حد تک استفادہ کر سکیں گے۔ 2023ء ہی میں بلوچی اور ا ردو کے معروف شاعر صادق مری نے مبارک قاضی کی منتخب بلوچی شاعری کا منظوم اردو ترجمہ ’’مبارک قاضی کی نظمیں ‘‘کے نام سے مہر در پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع کروائی ہے ۔
ان کے مطابق اگر ہم قاضی کی شاعری کو سمجھنے کی کوشش کریں تو وہ جذبات رومانیت اور مزاحمت کے امتراج سے تشکیل پاتی ہے۔ بلوچستان کی بنجر زمین پر مزاحمت اور رومانیت کی فصل ہی اگ سکتی ہے۔ دو عناصر عوامی مزاج کا حصہ بن چکے ہیں ۔
اور قاضی بلا مبا لغہ اس عہد کے بلوچی کے مقبول ترین شاعر ہیں۔ ان کے مطابق اردو کے مزاج سے قریب ترین نظموں ہی کا انتخاب کیاگیا ہے ۔
،،گواچن ،، کے نام سے ایک چھوٹی سی نظم کا ترجمہ
سچائی
تم چڑ ھا دومجھے
دار پر
خاک میں گاڑ دو سینکڑوں بار
لیکن میں مٹ کربھی ہر دفعہ
سر اٹھا ئوں گا
پھر لوٹ آئونگا
سچ ہی کہونگامیں ہر دفعہ
دیکھا جائے تو انہوں نے اس چھوٹی سی نظم میں ادب برائے زندگی سے اپنی وابستگی کی بھر پور ترجمانی کی ہے ۔یوں بھی وہ محبت اور مزاحمت کے بہت بڑے شاعر کے طور پر جا نے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا۔ جہاں ان کی رحلت کے بعد شعر و سخن سے متعلق آنے والی نسل بھر پور استفادہ کرتے ہوئے راہوں کے تعین میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوگی ۔
’’وطن ‘‘ کے عنوان سے یہ نظم دیکھئے

لہو سے لکھو ں گا اپنے لوگوں کے استقامت کی داستان میں
کہ بعد میرے
زمین زادوں کو راہ میں کچھ
نشاں ملیں گے
وہ میری نظموں کو اپنے دیوار و درپہ لکھیں گے
جا ن پائیں گے رہنما وقت کے
محبت کو
اس وطن کی جوماں ہے
صدیوں سے یہ وطن ہی تو زندگی اور آدمی کے لئے ہے آزادیوں کی منزل
وطن ہے ایماں یہ عشق و مذہب
جوقوم ہوتو وطن ہے سر چشمہ عظمتوں کا
وطن ہے انجیل ، وید ، گیتا ، زبور ، تورات ، اور قرآن
وطن مرادوں کی ایک زمین ہے
وطن ہے بادصباد
بہار وں میں رنگ نکھریں دھنک کی صورت
وطن نہیں تو
نہیں ہے کچھ بھی
وطن کے ہونے سے زندگی ہے
ابد تلک ایک سر خوشی ہے
مبارک قاضی اور اس کی شاعری کے حوالے سے ڈاکٹر شاہ محمد مری کچھ یوں بھی لکھتے ہیں۔
وہ بلوچ مین سٹریم شاعری کا حصہ تھا۔ بلوچ مین اسٹر یم شاعر ی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ سامراج دشمن اور وطن دوست ہے۔ غریب نواز اور ظلم دشمن ہے۔ ترقی پسند اور فطرت کی صفت گزار ہے ۔ مجموعی طورپر وہ ایک سیاسی شاعری تھا۔ اپوزیشن کا شاعر، ایک مزاحمتی شاعر، ایک انقلابی شاعر ،وہ بلوچ کی آزادی اور اس کی تحریک آزادی کا ایک لحاظ سے ترجمان شاعر تھا ۔ مبارک قاضی نے مہری شاعری بھی زبردست کی۔ احساسات و جذبات کی ترجمانی میں وہ بے مثال تھا۔
یہ نظم دیکھئے
یہ پل کہ زندگی دلکش ہے
یہ رات ڈھلنے لگی جس طرح تری زلفیں
یہ چاندنی رخ زیبا کا عکس ہے جیسے
یہ ٹمٹما تے ستا رے تمہارا آنچل ہیں
ہوا میں بکھری ہوئی ہر طرف کوئی خوشبو
تری ہنسی میں چمک ہے کھلے ہوئے گل کی
ہوائیں الجھتی ہیں تیری زلفوں سے
یہ کائنات ہے احسان تیری آنکھوں کا
یہ پل کہ زندگی دلکش ہے کس قدر دیکھو
’’قاضی جومبارک بھی تھا ‘‘میں عابد میر لکھتے ہیں کہ صادق مری کے تراجم دو وجوہات سے ذیادہ توجہ اور احترام کے لائق ہیں ایک یہ کہ وہ خود شاعرہے اردو اور بلوچی کا بہت اچھا شاعر ،اس لیے زبان کی اور شعر کی باریکیوں کو خوب سمجھتا ہے ۔دوسرا یہ کہ مشرقی بلوچی کا ایک شاعر مغربی بلوچی کے شاعر کو ترجمہ کررہا ہے (اور یہ کتنی پیاری بات ہے)
انہیں چھوٹی چھوٹی نظم کہنے پر بھی بڑی دسترس حاصل تھی ۔۔۔جہاں فکر اور فن کی بلند ی اور امتزاج سے شاہکار تخلیقات ہی سامنے آئی ہیں ۔بہرحال اس وقت یہ نظم دیکھے ۔
بس ہے ڈول بیت کا ترجمہ۔
۔۔۔یوں بھی ہوتا ہے
بس یوں ہوتا ہے
مجھ کو نہ اس کی خبر تھی کہ میںموت سے پیش تر دیکھ پائوں گا سب
یہ گناہ گار سایوں سے ایسا سلوک
ایک پل میں نے دیکھا پلٹ کر جو دیوار ودر کو
تو کوئی نظارہ نہ تھا قابل دید
خاشاک ہیں ایک طرف
خاک ہے ایک طرف
اک طرف شیشہ رنگ منظر ہے بکھر ا ہوا
زندگی اک طرف
موت ٹھہری ہوئی اک طرف
زندگی کا وہاں کوئی پیکر نہ تھا
ایسے حالات کو میںبدل تو نہ سکتا ہے
دھند لی ہوئی شام کے ہیں مناظر یہی
میں مسافر تھا لتھڑا ہوا خاک میں
ایک تنہا شکستہ
کسی بیکر اں دشت میں
مرکے بھی کیاکروں ؟
شیشہ ء رنگ منظر یہ خاشاک چاروں طرف
زندگی کی یہ قیمت نہیں
طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ مزاحمت اور محبت کی راہوں کے راہی بنے ۔اسی پاداش میں زندانوں کی صعوبتیں جھلیں۔ فکر اور فن کی بالیدگی پائی۔ یہ نظم اس کیفیت مناظر اور جذبات کے پس منظر میں کہی گئی ہے۔ جب ان کے گھر پر دستی بموں سے حملہ ہواتھا ۔اس نے کہا تھا کہ یہی جنگ ہمیں متحد بھی کرے گی۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *