سی پی ڈی آئی کی کاوش رائٹ ٹو انفارمیشن کے حوالے سے سارے پاکستان میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اب یہاں پر بلوچستان میں ایک اچھے وقت پر رائٹ ٹو انفارمیشن کے حوالے سے سیمینار کرنا ایک زبردست سی بات ہے۔ میں پچھلے چھ سالوں سے ایڈ بلوچستان کے پلیٹ فارم پبلک اکاؤنٹیبلٹی فورم سے بلوچستان میں رائٹ ٹو انفارمیشن کے حوالے سے جدوجہد کر رہا ہوں۔ ان خیالات کااظہار میر بہرام بلوچ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوںنے کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن کا قانون اور پھر اس کے رولز آف بزنس بنانے کیبنٹ اور بلوچستان اسمبلی سے پاس کروانا رائٹ ٹوانفارمیشن عمل درآمد کے لیے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ کوارڈینیشن میں رہا اور مسلسل فالو اپ کے بعد انفارمیشن افیسرز کی نامزدگی اور انفارمیشن کمیشن کے پروسیس کو اپنے نظر سے دیکھنا۔
انہوں نے کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن کے حوالے سے تازہ ترین اپڈیٹ میں دیتا چلوں کہ گزشتہ دنوں بلوچستان کے کیبنٹ کی میٹنگ ہوئی، جس کا ایجنڈا پوائنٹ یہ تھا کہ انفارمیشن کمشنرز کے انٹرویوز ہوئے ہیں ۔ کیبنٹ کے سامنے اور وزیر اعلیٰ کے سامنے کچھ آپشنز رکھے گئے تھے کہ ان کا نوٹیفکیشن کیاجائے۔ تاہم وزیر اعلیٰ نے انفارمیشن کمشنرز کی تعیناتی کے کرائٹیریا پر سوالات اٹھائے اور رائٹ ٹو انفارمیشن بلوچستان کے قانون میں ردو بدل یا یا۔ امینڈمنٹ کرنے کے آرڈرز جاری کر دیئے اور اس کے ساتھ ساتھ دو ایسے لوگوں کی تعیناتی کا آرڈر دیا جو رائٹ ٹو انفارمیشن 2021 کے قانون کے کرائٹیریا کے مطابق نہیں آتے۔ اب سول سوسائٹی بلوچستان کو وزیر اعلیٰ بلوچستان کے اس فیصلے پہ تحفظات ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کا مقصد ہی صوبے میں احتساب اور شفافیات کا نظام اور کرپشن کا خاتمہ ہو، مگر اب بلوچستان رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کی بنیاد ہی شفافیت اور احتساب کا خیال نہ رکھنا، اب سول سوسائٹی بلوچستان سمجھتی ہے کہ رائٹ ٹوانفارمیشن کمیشن بلوچستان ایک تنازعہ کا شکار ہو چکا ہے۔
آخر میں آئے ہوئے سارے پاکستان سے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹیوسٹ سے میں درخواست اور مطالبہ کرتا ہوں کہ بلوچستان کے کیس کو خاص طور پر توجہ دی جائے، یہاں پر جو رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ اور رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کے ساتھ جو ہوا ہے، اس بارے میں اپنی آواز بلند کریں اور بلوچستان کے عوام کو ایک شفاف اور خود مختیار رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن بنانے میںان کی مددکریں۔