ہم مسٹر بھٹّو پر بلاجواز تنقید شروع کر دیں تو یہ اقدام جانبدارانہ طرزِ سوچ پر مبنی ہونے کے سبب قطعی طور پر مناسب نہیں ہے مگر یہ ایک تابندہ حقیقت ہے اور سیاست کی تاریخ کی نہ صرف جزوِ لاینفک بلکہ روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے کہ پی پی اور بی ایس او کم و بیش ایک ہی دور کی پیداوار ہیں۔
جدید دور کے ساتھ ہم آہنگ علم و سائنس پر دسترس بلکہ عبور کے اس زمانے میں بلوچستان میں تعلیمی ادارے چونکہ نہیں سے بھی دو قدم پیچھے تھے اِس لیے درمیانہ طبقے کے زمیندار اور سفید پوش بلوچ والدین جو اْس دور کی مناسبت سے مالی طاقت رکھتے تھے اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے کراچی اور لاہور وغیرہ بھیجتیتھے کیونکہ اْس دور میں جس طرح کہ کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں اعلیٰ تعلیمی ادارے سرے سے موجود ہی نہ تھے سو مسٹر بھٹو نے ( جو ایک ملک گیر پارٹی کی تشکیل کی کوششوں میں مصروفِ عمل تھے ) موقعِ غنیمت سے فائدہ اٹھا کر اور مختلف ذرائع کو بَروئے کار لا کر بلوچستان خصوصاً مکران سے تعلق رکھنے والے سفید پوش اور درمیانہ طبقے کے اِن نوجوان طلباء سے روابط بڑھا کر ان کی کثیر تعداد کو اپنے حلقہِ اثر اور پارٹی میں لانے کی سعی کی ۔ماضی کی بات ہے مگر فطرت ، کردار اور اعمال کے مشاہدوں سے لگتا ہے کہ بھٹو اْس دور کے ایک شاطر اور چالاک سیاستدان رہے ہیں اور شاید اسی کارن وہ مر کر اب تک زندہ ہیں لہٰذا وہ بخوبی جانتے تھے کہ نیپ میں شامل ترقی پسند ، بالغ النظر بلوچ اور پشتون قوم دوست اور جمہوریت پسند سیاستدان اسلامی کمیونزم کے جھوٹے نعرے کی بنیاد پر پی پی کی جاگیردار قیادت کے ساتھ مل کر عوامی لیگ کے خلاف ہمکاری نہیں کریں گے جو قوم پرست اور جمہوریت پسند ہونے کے ناطے ملک کی محکوم اقوام کے لیئے پی پی سے نسبتاً بہتر ، مثبت اور دْور رس پروگرام رکھتی تھی ۔ یہاں پر یہ بھی مسٹر بھٹو کی خوش قسمتی تھی کہ اْس قحط الرجال کے دور میں پنجاب میں کوئی قابلِ ذکر لیڈر نہیں رہا ہے جبکہ پنجاب کے لوگ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان موجود اندرونی تضادات ، کشاکش اور اختلافات کے سبب عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمٰن کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ عوامی لیگ اور شیخ مجیب سے پنجاب کی بالادستی کو خطرات لاحق تھے اس لیئے پنجاب کے لوگ بنگالیوں کو نفرت بھری نظروں سے دیکھتے تھے اور مشرقی پاکستان کے قائدین کو نہ صرف اپنا عدو بلکہ ملک دشمن سمجھتے تھے حالانکہ مشرقی پاکستان کے لوگ اور عوامی لیگ کے کارکنان جمہوری اصولوں کے مطابق اقتدار کی منتقلی پر امن اور قانونی طرز پر چاہتے تھے ۔اِدھر مغربی پاکستان میں پی پی کے علاوہ بلکہ فکری اور نظریاتی طور پر اْن سے بہتر ایک پارٹی کے طور پر نیپ وجود رکھتی تھی مگر مسٹر بھٹو نیپ اور ان کی قیادت کو بلوچستان اور کے پی کے میں اپنی سیاسی اور انتخابی بالادستی کے سامنے رکاوٹ سمجھ کر ناپسندیدگی بلکہ حقارت کی نظروں سے دیکھتے تھے سو مسٹر بھٹو نے بی ایس او میں شامل کراچی کے بلوچ طلبا میں موجود اپنے ہم خیال لوگوں کے ذریعے گروپ بندی کی ابتدا کر دی تاکہ ان فعال نوجوانوں کے ذریعے بلوچستان میں پی پی کے لئے ہمدردیاں پیدا کر سکے اور پی پی بلوچستان میں جڑ پکڑ لے۔ ادھر زمیندارانہ کلاس کے ساتھ وابستگی رکھنے والے درمیانہ طبقے کے بلوچ نوجوان طلبا نے خود بھی اپنی کلاس کو سرکاری عہدوں اور منصبوں پر متعارف کروانے بلکہ ان کو قوم دوست بلوچ سرداروں کے مدمقابل لاکھڑا کرنے کی دانستاً اور کئی کمزور طلباء نے نا دانستاً کوششیں کیں، اس سے یہ ہوا کہ بی ایس او دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی اور بی ایس او اینٹی سردار کے نام پر ایک الگ گروپ بن گیا جس میں بہت سارے بلوچ طلبا شامل ہو گئے۔ یہ گروپ مسٹر بھٹو کے دور حکومت میں بلوچستان پر فوجی آپریشن اور لشکر کشی کی دور تک قائم رہی مگر بعد میں حقیقتِ حال سے آشنائی پر اِس گروپ نے اپنا نام بدل کر بی ایس او ( عوامی ) رکھ دیا اور ان تمام لوگوں کو اپنی صفوں سے نکال باہر کر دیا اور ان عناصر کے ساتھ قطعِ تعلق کر دی جو مسٹر بھٹو اور پی پی کی سوچ و فکر سے متاثر تھے مختصراً یہ کہ آگے چل کر سردار دوستی اور دشمنی کی سوال پر بلوچ نوجوان قیادت کے ہر دلعزیز رہنما شہید وطن فدا احمد اپنی ایک تقریر میں کہتے ہیں کہ ” جن بلوچ قوم دوست سرداروں اور نوابوں کو کچھ لوگ سرداری اور نوابی کے مفادات کی نگہبان اور محافظ سمجھتے ہیں اْن سرداروں کو بلوچ نوجوان قوم دوست رہنما ، بلوچ قومی تحریک کے محرک و پیشرو اور قائد مانتے ہیں جن کی قربانیاں اور بلوچ قوم کے لیئے جدوجہد کسی سے پوشیدہ نہیں ہے” آگے چل کر وہ کہتے ہیں کہ “بلوچ نوجوان سردار جام جیسے کردار اور اعمال کے لوگوں کو سمجھتے ہیں جن پر ہم لعنت بھیجتے ہیں”
تقسیمِ بنگال اور بلوچستان میں بلوچ قوم پرستوں کی حکومت کی برخاستگی کے سوالوں کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو مسٹر بھٹو کو سمجھنا شاید آسان رہے ۔یہاں پر حقائق کی درستگی کے لیئے یہ اظہار اور اعتراف کرنا ضروری ہے کہ آبادی کے تناسب کی عدم توازن پر پاکستانی مقتدرہ پنجابی قوم کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر نہ صرف خواہش بلکہ عملاً کوشاں رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح بنگال سے جان چْھّڑا لی جائے ( اِس قضیئے پر معروف صحافی حامد میر کی ایک دستاویزی وی لاگ موجود ہے)عملی طور پر ون یونٹ اور پیریٹی کے تجربات اس کی زندہ ثبوت ہیں ۔یہاں پر دانشور لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مقتدرہ کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں میں مسٹر بھٹو نے 1970ء کے انتخابات کی نتائج کو عوامی لیگ کے حق میں دیکھ کر یحیٰی جنرل خان کو لاڑکانہ بْلا کر قائل کر دیا تھا کہ حکومت کسی بھی صورت میں شیخ مجیب کے حوالے نہیں کرنا ہے۔ مسٹر بھٹو کے کہنے پر یا ذاتی طور پر دو ، تین سینئر فوجی افسران نے اور بعدازاں مسٹر بھٹّو نے براہ راست یحیٰی خان کو ڈرایا تھا کہ آپ نے اگر اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کر دیا تو شیخ مجیب کے پاس چونکہ ووٹ کی طاقت ہے لہٰذا وہ آئین میں تبدیلی لا کر آپ کو ملکہِ برطانیہ کی طرح بے اختیار بنا دیں گے اور آپ برائے نام اقتدار پر رہ جائیں گے ۔نامور دانشور شجاع نواز کے بقول اْس وقت جنرل یحیٰی خان ہر کْجا اور ہر کسی سے کہتے رہتے تھے کہ مجھے ملکہِ برطانیہ کی طرح بے اختیار نہیں بننا ہے۔ اس طرز پر اگر دیکھا جائے تو سیاستدانوں میں سے مسٹر بھٹو کا پاکستان کی تقسیم میں کردار نہ صرف شامل بلکہ کلیدی رہا ہے ہاں البتہ یہاں پر یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جنرل یحییٰ خان اگر نہ چاہتے ، متفق ہو کر عمل نہ کرتے تو مسٹر بھٹو اپنے تئیں کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے، پاکستان بچ جاتا اور ملک میں جمہوریت اس طرح بے سروپا اور رْسوائے دوجہاں شایدنہیں ہوتا۔ معروف پشتون صحافی رفیع اللہ کاکڑ کہتے ہیں کہ مسٹر بھٹو نے نیپ کے بلوچ اور پشتون قیادت کے ساتھ جو کچھ کیا وہ سب دراصل ہر باشعور اور باضمیر انسان کے لیئے ناقابلِ فہم ہے کہ مسٹر بھٹو نے نیپ کے ساتھ کیوں اس طرح کیا کیونکہ نیپ بلوچستان اور کے پی کے سے آگے اثر رسوخ اور موثر وجود نہیں رکھتی تھی جو مغربی پاکستان کے بڑے اکائیوں پنجاب اور سندہ میں پی پی کی اقتدار اور نمائندگی کے لیئے خطرہ ثابت ہو سکے مگر پھر بھی بھٹّو نے نیپ کو نہیں چھوڑا ۔بھٹو نے آئین کی منظوری تک میر بیزنجو اور ولی خان کو تسلیاں دیں مگر آئین پر دستخطوں کے ساتھ ہی مسٹر بھٹو نے نیپ پر پابندی لگا دی اور بلوچ قیادت کو گرفتار کروالیا۔ یہ سوال موجودہ دور تک لوگوں کے لیے ناقابل فہم ہے کہ بھٹو نے ان لوگوں کے ساتھ آخر کیوں اس طرح کا غیر سیاسی رویہ رکھا کیونکہ فکری اور نظریاتی طور پر یہ لوگ بنیاد پرستوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے مقابلے میں مسٹر بھٹو کے زیادہ قریب تھے۔ نیپ کے ان قائدین کو شاید اس بنیاد پر سزا دی گئی کہ جنرل ایوب اور فاطمہ جناح کے انتخابی مقابلے میں نیپ کے قائدین فاطمہ جناح کے ساتھ تھے اور بعد میں نیپ کے لوگوں نے عوامی لیگ کے موقف کو برحق جانا اور ان کے ساتھ ہمکاری کی تاکہ اقتدار کی منتقلی پْر امن اور جمہوری طرز پر ہو سکے لہٰذا ان مثبت اعمال کے جواب میں بلوچ اور پشتون قائدین کو جیل بھگتنا پڑا اور ان کی پارٹی پر پابندی لگ گئی۔ رفیع اللہ کاکڑ کہتے ہیں کہ اسی اختلاف کی بنیاد پر میر بیزنجو کو بعد میں ان کے شاگردوں نے ہی شکست سے دوچار کر دیا۔رفیع اللہ کاکڑ کہتے ہیں کہ انتخابات اور پی این اے کی تحریک کے بعد مسٹر بھٹّو جب گرفتار اور شاید مری کے سہالہ ریسٹ ہاؤس میں پابند سلاسل تھے تو جنرل ضیاء الحق کبھی کبھار بھٹو کے پاس جایا کرتے تھے اور اپنی فطرت کے مطابق بھٹو کو پالش لگایا کرتے تھے کہ سر جی دیر تک اقتدار پر قابض رہنا ہمارے عزائم میں شامل نہیں ہے ہم نوے دنوں کے اندر اندر انتخابات کروا کے بیرکوں میں چلے جائیں گے اس لیے آپ اپنی تجاویز دے دیں کہ ہم کیا کریں تاکہ انتخابات غیرجانبدارانہ اور شفاف رہیں۔ اس پر رفیع اللہ کاکڑ کہتے ہیں کہ مسٹر بھٹّو نے جنرل ضیاء کو جو تجاویز دیئے ان میں سرِ فہرست تجاویز یہ تھے۔ اوّل یہ کہ آپ نیپ پر پابندی کو کسی بھی صورت میں ختم نہ کریں۔دوئم یہ کہ گرفتار بلوچ رہنماؤں کو جیلوں سے رہا نہ کریں۔سوئم یہ کہ حیدرآباد سازش کیس کو چلنے دیں۔ آگے چل کر رفیع اللہ کہتے ہیں کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ بِلا کسی معقول جواز اور بنیاد کے ایک انسان اس حد تک حسد اور بْغض رکھ سکتا ہے کہ اْن کے لیئے ایک گروہ ، قوم یا نسل کا وجود قابلِ برداشت نہ رہے۔ بدقسمتی سے اِس وقت بھی پی پی میں ماضی کے مذکورہ رجحانات ترکہ اور ورثہ کے طور پر موجود ہیں اور اسباب بھی وہی ہیں اوّل یہ کہ پنجاب میں جو وفاق میں حکومت سازی اور نمائندگی کا منبع ہے وہاں پر پی پی کا وجود برائے نام ہے اور اِس حد تک نہیں ہے کہ انتخابات میں ایک بہتر اور فیصلہ کْن پوزیشن حاصل کر سکے۔ اب تو پی ٹی آئی کی موجودگی میںپی پی مزید کمزور ہو چکی ہے اس بار موقع کی مناسبت سے زرداری نے بھرپور کوشش کی تھی کہ پی ٹی آئی کے ووٹ پی پی کو ملیں مگر نتیجہ یہی نکلا کہ پی ٹی آئی نے ماضی کا ریکارڈ توڑ دیا اور ن لیگ والوں کو بھی فارم 47 کا مرہونِ منت بنا دیا لہٰذا متبادل کے طور پر اور پی ٹی آئی کے ساتھ ضد کی بنیاد پر مقتدرہ کی جانب سے پی پی کو سندھ میں کامیابی کے ساتھ ساتھ بلوچ قائدین اور بعض نامور صحافیوں کے مطابق بلوچستان کے نمائندے بھاری ادائیگیوں اور نیلامیوں کے بدلے میں تحفے کے طور پر دے دیئے گئے ۔بلوچستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں یا پھر سینٹ کے انتخابات ہوں، بولیوں اور نیلامیوں نے رواج کی شکل اختیار کر لی ہے اور اس تماشے میں نام نہاد قوم پرست بلوچ پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین کو (جو پارلیمانی سیاست اور مقتدرہ کے ساتھ جھکاؤ رکھنے کے سبب بلوچ عوام میں اثر رسوخ ، جڑیں اور وجود نہیں رکھتے) ایک دو سیٹوں پر کامیابی دلا کر یا ان کے حلقوں میں مداخلت نہ کر کے ان سوالیوں اور حاجت مندوں کو خوش کیا جاتا ہے۔ آپ بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں ہر دور کو سامنے رکھ کر دیکھ لیں بلوچستان میں ن لیگ ، ش لیگ ، ق لیگ ، باپ پارٹی ، پی ٹی آئی اور پی پی وغیرہ عملاً اگرچہ موثر وجود نہیں رکھتے مگر تمام ادوار کی حکومتوں میں ان کی شراکت داریوں کو دیکھا جا سکتا ہے ۔افسوس تو اس امر پر ہے کہ بلوچستان ملک کے ایک آئینی اور قانونی اکائی کی حیثیت سے ضروری اور بنیادی ادھیکار
( استحقاق )رکھنے کی بہ نسبت مقتدرہ کے لئے ذریعہِ آمدن اور کمائی کے طور پر دکھائی دیتا ہے۔ ٹکٹوں پر کمائی ، انتخابات میں کامیابیوں یہاں تک کہ ناکامیوں پر کمائی ، حکومت سازی میں کمائی ، وزارتوں پر کمائی ، ٹرانسفر اور پوسٹنگ میںکمائی ، بھرتیوں پر کمائی ، ٹھیکوں پر کمائی ، کرپشن کی اجازت اور رعایت پر کمائی ، کاروبارِخاص اور کاروبارِ عام پر کمائی ، ایران اور افغانستان کے بارڈروں پر کمائی ، چیک پوسٹوں پر کمائی ، معدنی ذرائع اور وسائل پر کمائی ، وسیع و عریض ساحل پر کمائی ، گوادر بندرگاہ پر کمائی اور فضائی حدود کے گزرگاہوں پر کمائی۔ بلوچ قوم اور وطن کی جانب سے ان تمام احسانات اور نوازشوں کے بدلے میں سرکار کی جانب سے شاباشیوں کے طور پر کارہائے نمایاں یا دادودہش یہی کہ بلوچستان کے اہم ترین تعلیمی ، تحقیقی اور تیکنیکی ادارے سرے سے بند ہیں اور بلوچ نوجوان دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں پھر بھی مقتدرہ کو گلہ ہے کہ بلوچ فرزند خوش اور شاداں ہونے کے بجائے برہم کیوں ہیں؟
Leave a Reply