|

وقتِ اشاعت :   2 hours پہلے

کوئٹہ:جماعت اسلامی بلوچستان کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس نے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان کے ساحل و و سائل پر یہاں کے لوگوں کی حق حاکمیت تسلیم کرکے لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے، بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ 70 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں، صوبے میں امن و امان کیلئے 85 ارب روپے دئیے جا رہے ہیں لیکن ان اربوں روپے کا کوئی حساب کتاب نہیں لیا جا سکتا نہ ہی ان سے پوچھا جا سکتا ہے

کہ امن و امان کیوں قائم نہیں ہو رہاکوئی بلوچ اور پشتون ریاست کے خلاف نہیں ہے لیکن ہمیں آئین پاکستان کے مطابق حقوق چاہیے، جب سے پاکستان بنا ہے پردے کے پیچھے لوگوں کو جو پسند تھا انہیں بھیجتے جو نہیں تھے انہیں نکال دیا جاتا اس بار جو ممبران اسمبلی بھیجے گئے بدقسمتی سے اس میں 10 فیصد سے بھی کم لوگ ہیں جو ووٹ کے ذریعے منتخب ہوئے ہیں،

نوجوانوں کو دھوکے میں رکھ کر اپنے بچوں کو باہر تعلیم دلا کر پاکستان کو مزید تاریکی میں نہیں رکھا جا سکتا تمام مسائل کا حل بنیادی طور پر سیاست ہے طاقت نہیں، قومی سیاسی قیادت کو اکھٹے ہوکر آئین پاکستان کے تحت ملک و قوم کیلئے مل بیٹھ کر سوچنے اور مل کر عالمی اسٹیبلشمنٹ و پاکستان کے اندر وہ اسٹیبلشمنٹ جو عوام کو اپنے حق سے محروم کررہی ہے ان کے خلاف صف آرا ہونے کی ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار ہفتے کو کوئٹہ پریس کلب میں آل پارٹیز کانفرنس سے جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر لیاقت بلوچ، صوبائی امیر مولانا ہدایت الرحمان بلوچ، نیشنل پارٹی کے میر کبیر احمد محمد شہی، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما و زمیندار ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ملک نصیر احمد شاہوانی، جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما مولانا کمال الدین، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے صوبائی صدر نصر اللہ زیرے، پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی نائب صدر خورشید احمد کاکڑ ایڈووکیٹ، مجلس وحدت المسلمین کے رہنما علامہ مقصود علی ڈومکی، مرکزی جمعیت اہل حدیث کے مولانا عصمت اللہ سالم، جمعیت علمائے پاکستان کے سید مومن شاہ جیلانی، حق دو تحریک کے حافظ کیازئی نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر اسٹیج سیکرٹری کے فرائض زاہد اختر بلوچ اور مرتضی خان کاکڑ نے سر انجام دئیے۔ آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے وسائل پر یہاں کے عوام کا حق ہے لاپتہ افراد سے متعلق 2004 میں پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کو اکھٹا کیا اور ریڈ زون میں اس مسئلے پر احتجاج کیا گیا۔

سردار عطا اللہ مینگل، میر غوث بخش بزنجو، خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی، خان عبد الولی خان و دیگر سیاسی اکابرین نے جیلیں کاٹیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نظام آرمی چیف کی چھڑی کے زیر سایہ ہیں بلوچستان میں خطرات کی جو گھنٹیاں بج رہی ہے ان پر توجہ کی ضرورت ہے یہ مسائل طاقت کے ذریعے یا کچھ لوگوں کو خرید کر بلوچستان کے عوام کو نرغے میں لائیں گے تو یہ سنگین غلطی ہے، پاکستان میں ہر 5 سال بعد انتخابات ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے سسٹم دن بدن بیٹھ رہا ہے ہر انتخاب پہلے سے زیادہ بد تر ثابت ہو رہا ہے اپنی مرضی کے نتائج کیلئے بدترین انجینئرنگ کی جاتی ہے، بلوچستان میں عوام کیلئے اللہ تعالی کے دئیے گئے معدنیات پر حق حاکمیت سے محرومی اب مزید برداشت کے قابل نہیں رہا پہلے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وسائل پر بلوچستان کا حق تسلیم کیا جائے،

جدید دور میں زور زبردستی اب مزید عوام برداشت نہیں کریگی، انہوں نے کہا کہ 20 سال سے جو سلسلہ چل رہا ہے اب ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کیونکہ اب نوجوان کیلئے یہ سلسلہ قابل قبول نہیں ہے حکومت و فوج کا جو نقطہ نظر ہے یہ پاکستان و بلوچستان کیلئے مشکلات کا باعث بن رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی بہتری کیلئے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل طلب ہے ریاست سے مطالبہ ہے کہ کسی نئے آپریشن کی بجائے ملکی مسائل کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں غربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ہمارے حکمران دنیا کے سامنے کچکول پھیلاتے پھیر رہے ہیں، بے پناہ قرضے حاصل کئے گئے

لیکن عوام پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے نوجوانوں کو دھوکے میں رکھ کر اپنے بچوں کو باہر تعلیم دلا کر پاکستان کو مزید تاریکی میں نہیں رکھا جا سکتا تمام مسائل کا حل بنیادی طور پر سیاست ہے طاقت نہیں، قومی سیاسی قیادت کو اکھٹے ہوکر آئین پاکستان کے تحت ملک و قوم کیلئے مل بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کو تجویز ہے کہ آپ ایک جرگہ بنائیں وہ اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور و کراچی میں سیاست دان، دانشور، ادیب و اہل علم کے سامنے بلوچستان کا مسئلہ رکھیں پاکستان کا ہر فرد دل میں احساس رکھتا ہے اور امید ہے کہ ان تمام شہروں میں اہل علم کے ساتھ جو مجلس کریں گے اس کا مثبت اثر سامنے آئے گا۔ ہمیں مل کر عالمی اسٹیبلشمنٹ و پاکستان کے اندر وہ اسٹیبلشمنٹ جو عوام کو اپنے حق سے محروم کررہی ہے ان کے خلاف صف آرا ہونے کی ضرورت ہے۔

جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے تمام سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان کے شہری اور آئین و قانون کو ماننے والے ہیں فوج کو اپنے بیرکوں تک محدود اور سیاستدان جو پارلیمان تک محدود ہونا چاہیے۔ بلوچستان کے باسی کی حیثیت سے یہاں کے عوام کے وسائل کا ہر صورت تحفظ کریں گے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سی پیک سے ایک فیصد نہیں ملا ہے لیکن بدقسمتی سے سی پیک کے دھماکے صرف بلوچستان میں ہو رہے ہیں، مختلف واقعات میں فورسز کے اہلکار ملوث ہیں، صوبے میں امن و امان کیلئے 85 ارب روپے دئیے جا رہے ہیں لیکن ان اربوں روپے کا کوئی حساب کتاب نہیں لیا جا سکتا نہ ہی ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ امن و امان کیوں قائم نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے

بلوچستان میں کوئی ایسا ضلع نہیں جہاں حق کیلئے لڑنے والے کسی جوان کا قبر نہ ہوں۔ بلوچستان کے میڈیا سے گزارش ہے کہ آپ خوف کا شکار نہ ہوں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مینار پاکستان پر جلسہ کرکے پاکستانیوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ کوئی بلوچ اور پشتون ریاست کے خلاف نہیں ہے۔ نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر میر کبیر احمد محمد شہی نے کہا کہ جب سے پاکستان بنا ہے پردے کے پیچھے لوگوں کو جو پسند تھا انہیں بھیجتے جو نہیں تھے انہیں نکال دیا جاتا اس بار جو ممبران اسمبلی بھیجے گئے بدقسمتی سے اس میں 10 فیصد سے بھی کم لوگ ہیں جو ووٹ کے ذریعے منتخب ہوئے ہیں، ایک سیاسی جماعت کا ورکر کب پارلیمان جائے گا جب سیٹیں فروخت ہوتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں معاش کا مسئلہ کم درجے پر جبکہ بلوچستان میں سب سے زیادہ ہے، بلوچستان کی 70 فیصد، خیبر پختونخوا کی 48 فیصد، سندھ کی 40 اور پنجاب کی 30 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں، بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے، پاکستان کے دیگر علاقوں کو پتہ ہی نہیں کہ سوئی گیس کا نام سوئی کیوں رکھا گیا ہے، ڈیرہ بگٹی جس نے پورے پاکستان کو گیس دیا

وہ پسماندہ ترین ضلع ہے، چاغی میں لوگوں کے پاس ذریعہ معاش نہیں سکول جانے والے بچوں کے پاؤں میں چپل نہیں ہے، زکو جو اللہ نے فرض کر رکھا ہے وہ بھی 2 فیصد سے زیادہ ہے لیکن ریکوڈک منصوبے میں بلوچستان کا حصہ 2 فیصد ہے، انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل پر عمل درآمد ہوتا ہے تو اسلام آباد سے پیسے چلے جائیں گے، بلوچ آئین پاکستان کے تحت مطالبہ کررہا ہے کہ ہمارا حق حاکمیت تسلیم کیا جائے۔ بارڈر تجارت سے 30 لاکھ لوگوں کا ذریعہ معاش وابستہ ہیں ان پر روزگار کے دروازے بند کرکے انہیں پاکستان سے نفرت کرنے پر مجبور کیا گیا ہے، بدقسمتی سے گوادر کے ساحل پر لوگ حل چلا کر سمندری حیات کا خاتمہ کررہے ہیں کیونکہ بعض لوگوں نے کروڑوں روپے رشوت کے کھائے ہیں، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وزیر اعلی جو اسلام آباد کا بندہ تھا نے بلوچستان کی 70 لاکھ آبادی کم کردی، اب تو بلوچستان میں پوسٹیں بھی سر عام فروخت ہو رہی ہے، لاپتہ افراد کو پاکستان کے عدالتوں میں پیش کیا جائے تاکہ ان کے گھر والے مطمئن ہو جائیں، بلوچستان پاکستان کا غریب و پسماندہ ترین صوبہ ہے، انہوں نے کہا کہ گوادر 62 ارب ڈالرز کا منصوبہ ہے لیکن وہاں کے لوگ پینے کے صاف پانی کیلئے ترس رہے ہیں، اسی طرح پورا صوبے کی صورت حال ہے اگر یہی حال رہا تو بلوچستان ریگستان میں تبدیل ہو جائے گا، انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بلوچستان میں 300 ووٹ لینے والا اسمبلی اور 12 ہزار ووٹ لینے والا روڈوں پر گھوم رہا ہے ایسی صورت حال میں پاکستان کو چلانا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما مولانا کمال الدین نے کہا کہ بلوچستان کا بنیادی مسئلہ بدامنی ہے اس بدامنی میں کوئی عالم، وکیل، تاجر، سیاسی رہنما، سکول کا طالب علم سمیت کوئی بھی طبقہ محفوظ نہیں ہیں۔ بنیادی مشکل یہ ہے کہ جس کو اقتدار دیا جاتا ہے وہ لوگ کون ہیں؟ میں اس بات پر حیران ہوں کہ برسر اقتدار ہوتے ہیں

اس وقت وہ صاف ہوتے ہیں جب اقتدار سے نکل گئے تو ان پر کیسز بنائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک سیاسی جماعتیں آزاد نہیں ہوتی مسائل حل نہیں ہوں گے موجودہ انتخابات میں کیا ہوا سب کو پتہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک سیاسی جماعتوں آپس میں ایک نہیں ہوتی اسی طرح مشکلات سے دو چار ہوتے رہیں گے، میرا تعلق برشور کے ایک گاؤں سے ہیں اس گاؤں کو بھی الاٹ کیا گیا ہے، میرا مسجد، گھر، زراعت سب کو الاٹ ہوا ہے، 3 گھنٹے میں الاٹمنٹ کیلئے رپورٹ مرتب کرکے ڈی جی مائنز کو بھیجی گئی دوسری طرف سینکڑوں لوکل سرٹیفیکیٹس ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں موجود ہے اور کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہیں۔ جن کو اسمبلی بھیجا ہے انہیں خاموش رہنے کیلئے بھیجا ہے، صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں 8 سال کا بچہ سکول وین میں بیٹھ کر مصروف شاہراہ زرغون روڈ امداد چوک پر اتار کر لے جاتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ لواحقین آج بھی احتجاج پر ہیں ان کی کوئی سننے والا نہیں ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما و زمیندار ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ملک نصیر احمد شاہوانی نے کہا کہ بلوچستان کے طول و عرض میں جو خون بہایا جا رہا ہے یا صوبہ جس بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے ایسے حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان فوجی آپریشنز کی زد میں ہے لاپتہ افراد کا مسئلہ عروج پر ہے، صوبے میں ایسے مکانات ہے جہاں سے 3 بھائی لاپتہ ہیں لاپتہ افراد کے لواحقین مسلمانوں کے مذہبی تہوار عید بھی روڈوں پر مناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سردار اختر جان مینگل نے جلا وطنی کے بعد سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر 6 نکات پیش کیے کہ بلوچستان کا مسئلہ لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل سے لنک ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان کا مسئلہ نوجوانوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے شاید وہ سیاسی جماعتوں پر بھی اعتماد نہ کرے، بلوچ یکجہتی کمیٹی نے گوادر میں راجی مچی کا اعلان کیا

تو ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی، انہوں نے کہا کہ دیگر صوبوں میں تو دھاندلی ہوئی لیکن بلوچستان میں صوبائی اسمبلی بیچ دی گئی، وہ پارلیمنٹ جو بیخی گئی ہوں کیا وہ عوامی نمائندے ہیں۔ بلیلی کئی گھنٹوں سے بند ہے موجودہ اسمبلی کے کتنے نمائندے ان کے پاس گئے؟ آج ہر ٹرانسفر پوسٹنگ پر پیسے لئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیکورٹی پر 70 ارب روپے خرچ کئے جا رہے ہیں لیکن امن و امان تباہ ہے۔ بلوچستان میں دو بڑے ذریعہ معاش بارڈر ٹریڈ اور زراعت تباہ ہوکر رہ گئے یہ بلوچستان کے 80 فیصد لوگ اگر بے روزگار ہو گئے تو یہ کہاں جائیں گے؟ موجودہ حالات سے ہمارا نوجوان باغی ہو گیا ہے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے بلوچستان کے وسائل پر یہاں کے لوگوں کی حق حاکمیت تسلیم کرکے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ حل کیا جائے تو پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر عوام کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرے اور ان پر عمل درآمد کیلئے جدوجہد کا آغاز کرے۔ پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے صوبائی صدر نصر اللہ زیرے نے کہا کہ جماعت اسلامی نے اہم وقت پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کیا ہے حالات نازک ہے، لوگ محفوظ نہیں ہیں، انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے آج جہاں ہم بیٹھے ہیں

اس کی حدود میں جو شاہی جرگہ منعقد ہوتا تھا یہاں سے ہارس ٹریڈنگ کا آغاز ہوا، 14 اگست 1947 کو چیف کمشنر صوبہ پاکستان میں شامل ہوا جبکہ آزاد ریاستیں بعد میں پاکستان میں شامل ہوئیں۔ 47 سے 1956 تک یہ سرزمین بغیر آئین کے چلایا جاتا رہا ایک ملک کو بغیر آئین 9 سال تک چلایا گیا۔ 1940 کے قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ آئین کے بننے کے 2 سال بعد مارشل لا نافذ کیا گیا جس کے خلاف سیاسی زعما میں خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کو گرفتار کیا گیا۔ جب بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہوا تو سبق حاصل نہیں کیا گیا اس کے بعد مارشل لا نافذ کئے گئے، 1988 کے بعد سے نواز شریف و بے نظیر بھٹو کی حکومتیں قائم ہوئی لیکن اس کے بعد ایک اور مارشل لا نافذ کیا گیا جنرل پرویز مشرف کی شکل میں۔ 77 سال سے جو وعدے کئے گئے تھے کسی پر عمل نہیں ہوا، بلوچستان و خیبر پختونخوا کے وسائل کو بری طرح سے لوٹا گیا، ایک جنرل صاحب نے کہا کہ یہ وسائل پشتونوں کو جہیز میں تو نہیں ملا، آپ آئین اٹھا کر پڑھیں تاکہ پتہ چلے کہ آپ آئین کے خلاف بات کررہے ہیں، اتنے معدنیات لوٹنے کے بعد صرف پنجاب کو ترقی دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی موجودگی کے باوجود بلوچستان کے 70 فیصد بچے سکول نہیں جا رہے،

ہمارے قومی شاہراہوں کا یہ عالم ہے کہ آپ سفر ہی نہیں کر سکتے آپ کے بنائے ہوئے لوگ سڑکوں پر کھڑے ہوکر امن و امان کو تہہ تیغ کررہے ہیں، 4 دن سے ہرنائی راستہ بند ہیں ایف سی کسی کو چھوڑ نہیں رہے لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلیلی روڈ جو پنجاب و خیبر جا رہا ہے ایک معصوم بچے کی آغوا کے خلاف احتجاجا بلاک ہیں تمام سیاسی جماعتوں کو اس احتجاج میں شامل ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ غیر ریاستی عناصر کا عمل دخل بڑھ رہا ہے انہی کو آپ کی پشت پناہی حاصل تھی۔ انہوں نے کہا کہ جو معدنیات خیبر پختونخوا سے دریافت ہوئے ہیں ان سے آپ پاکستان کو 300 سال تک چلا سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے آپ آپ کی نظر ترقی کی بجائے لوٹ کھسوٹ پر ہے۔ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں 10 لاکھ ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی جس میں مائنز ڈیپارٹمنٹ کے اصول کو بھی مد نظر نہیں رکھا گیا ہے۔ چمن میں لوگ خودکشی پر مجبور ہیں نوجوانوں کو منشیات کی لعنت میں مبتلا کردیا سرحدی اضلاع میں بارڈر تجارت پر پابندی عائد ہے، بلوچستان کے لوگ 12 سو فٹ نیچے سے پانی نکال رہے ہیں، زمیندار تباہ ہو گئے، یہاں کے سیب پک جائیں تو ایران سے سیب منگوائے جاتے ہیں۔

بلوچستان کے لوگوں کیلئے کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا۔ ہمارے سیاسی زعما نے اپنے وطن کیلئے قربانیاں دیں جیلیں کاٹی۔ عثمان خان کاکڑ شہید کے جنازے میں کراچی سے کوئٹہ و مسلم باغ تک لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔ حالات انتہائی خطرناک حد تک چلے گئے ہیں، میرے حلقہ انتخاب میں 577 والے ووٹ کو اسمبلی بھیجا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ بندوں کی خاطر نظام عدل کو تہہ نہس کردیا ہمیں عوام کیلئے نکلنا پڑے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی نائب صدر خورشید احمد کاکڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی کا منشور ہے اور کوشش رہی ہے کہ انصاف ہوں پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر بنایا گیا لیکن بدقسمتی سے آج عدلیہ پر کاری ضرب لگا کر مفلوج کر دیا گیا۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 77 سال ہو گئے لیکن آج بھی ہمارے تمام ادارے مفلوج ہوکر رہ گئے، گزشتہ انتخابات میں عوام کے ووٹ پر شب خون مارا گیا۔ بلوچستان روایات کا امین صوبہ ہے لیکن بدقسمتی سے ان ریاست و حکومت اور عوام کے درمیان جو عمرانی معاہدہ ہے اس کو پاؤں تلے روندا جا رہا ہے۔ ہمارے پارٹی قائدین، ورکرز کو گرفتار کیا گیا ہمارے کارکنوں پر فائرنگ ہوئی، ایک کٹھ پتلی وزیر اعلی بلوچستان پر مسلط ہے،

پاکستان میں آئین کی بالادستی کے بغیر خوشحالی و ترقی اور معیشت کی بہتری ممکن نہیں ہے۔ اس فورم کے ذریعے مطالبہ ہے کہ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب و پی ٹی آئی کے گرفتار کارکنوں کو رہا کیا جائے۔ سکول جانے والے بچے محفوظ نہیں ہیں۔ مجلس وحدت المسلمین کے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ اس وقت بلوچستان کی مختلف سیاسی جماعتوں چند نقطوں پر متفق ہیں جس میں ساحل و وسائل پر حق حاکمیت، امن و امان کی مخدوش صورتحال پر کنٹرول، بلوچستانیوں کی قتل عام کی روک تھام اور 1973 کا آئین شامل ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ پاکستان مستحکم ہوں بدقسمتی سے آئین کو مسلکی شناخت پاکستان کو تقسیم در تقسیم کرے گا ضرور ہے کہ پاکستان میں آباد اقوام کو آئین پاکستان اور دین اسلام کے روح سے یکجا کرکے ان کے مسائل حل کئے جائیں۔ آل پارٹیز کانفرنس نے مشترکہ لائحہ عمل کیلئے تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جو آئندہ کے لائحہ عمل، ہڑتال کیلئے وقت کا تعین، اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور میں کانفرنسز کو حتمی شکل دیا جائے گا۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *