ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں ترقی یافتہ ممالک اس میںمزید جدت اور نئے آئیڈیاز لارہے ہیں ۔
تجارت سے لے کر معلومات تک رسائی کا ایک مؤثر ذریعہ ٹیکنالوجی ہے جس کے مختلف ذرائع اور ایپلیکیشنز ہیں ۔
خواص و عوام سب ہی مختلف ایپس کا استعمال کرتے ہیں ۔
اگر نیٹ سروسزمیں خلل یا دیگر ایپس پر بندش لگائی جائے تو نظام بری طرح متاثر ہوکر رہتا ہے۔
ملک میں ان دنوں ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک ( وی پی این) کے استعمال پر نیا تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے جس پر سیاستدانوں، علمائے کرام سمیت دیگر مکتبہ فکر و عوام میں الگ الگ رائے پائی جاتی ہے۔
وی پی این ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک کا مخفف ہے اوریہ ایک ایسے نیٹ ورک کا نام ہے جو صارفین کو پوشیدہ طور پر براؤزنگ کی اجازت دیتا ہے۔
ایسے تمام ممالک جہاں پر انٹرنیٹ صارفین کی سوشل میڈیا سائٹس تک رسائی ممکن نہیں ہوتی وہاں پر وی پی این کی مدد سے صارفین اپنا مقام تبدیل کرکے ان سوشل میڈیا سائٹس کو استعمال کرسکتے ہیں۔
بہرحال گزشتہ دنوں پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کے استعمال کو غیرشرعی قراردیا تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ راغب نعیمی کا کہنا ہے کہ غیر اخلاقی یا غیر قانونی امور تک رسائی دینے والے انٹرنیٹ یا سافٹ ویئر کا استعمال شرعاً ممنوع ہے۔
غیر قانونی مواد یا بلاک شدہ ویب سائٹس تک رسائی کے لیے وی پی این کا استعمال شرعی لحاظ سے ناجائز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ متنازع، گستاخانہ اورملکی سالمیت کے خلاف استعمال ہونے والی ایپلیکیشنز فوری بندکی جانی چاہئیں۔
علامہ راغب نعیمی نے کہا کہ حکومت کو شرعی لحاظ سے برائی اور برائی تک پہنچانے والے تمام اقدامات کا انسداد کرنے کا اختیار ہے۔
معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کا اسلامی نظریاتی کونسل کے فتوے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہنا ہے کہ مجھے تو نہیں پتہ کہ کون سی شرعی کونسل نے فتویٰ دیا ہے، اگر وی پی این حرام ہے تو پھر تو موبائل بھی حرام ہے کیونکہ اس میں وی پی این کے بغیر ہی اتنی چیزیں ہیں دیکھنے کی۔
معروف مبلغ اسلام کا کہنا تھا میرے خیال میں وی پی این کو حرام قرار دینے سے متعلق فتویٰ صحیح نہیں ہے، میرے خیال میں یہ تنگ ذہنی ہے، یہ درست نہیں ہے۔
وزارتِ داخلہ نے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کو غیر قانونی وی پی این بند کرنے کے لیے خط بھی لکھا ہے۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق دہشت گرد وی پی این کا استعمال کر رہے ہیں، وی پی این سے دہشت گرد بینک ٹرانزیکشن اور دہشت گردی میں مدد حاصل کرتے ہیں۔
وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ وی پی این استعمال کر کے دہشت گرد اپنی شناخت اور بات چیت چھپاتے ہیں جبکہ وی پی این کو فحاشی اور توہین آمیز مواد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ میری ذاتی رائے ہے کہ وی پی این کا معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کا بنتا ہی نہیں ہے، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے خواہ مخوا اس معاملے پر اپنی رائے دی ہے، مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے کیوں اس رائے کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا میں سمجھتا ہوں کہ راغب نعیمی صاحب نے غیر مناسب رائے دی ہے، انہوں نے حکومت کو سپورٹ کیا ہے لیکن ان کی سپورٹ الٹا حکومت کے لیے تنقید ثابت ہوئی ہے، انہیں چاہیے تھا کہ اس رائے کا اظہار کرنے سے پہلے کسی سے مشورہ کر لیتے، میں سمجھتا ہوں کہ وی پی این کا شریعت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اسلامی نظریاتی کونسل نے اسے خواہ مخواہ شرعی اور غیر شرعی کے چکر میں ڈال دیا ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا میں دعوے سے کہتا ہوں کہ وی پی این کا استعمال غیر شرعی نہیں ہے، اس پر کوئی گناہ یا سزا نہیں ہو گی، آپ بے دھڑک وی پی این کا استعمال کریں۔
بہرحال اس معاملے پر حکومت خود کنفیوژن کا شکار ہے ،محکمہ داخلہ اور وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ کی رائے بالکل ہی متضاد ہے۔
اب پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کی رجسٹریشن کے لیے مزید 2 ہفتے کی مہلت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کی رجسٹریشن کے لیے 30 نومبر تک مہلت دی جائے گی۔
یکم دسمبر سے غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جائے گا۔
پی ٹی اے ذرائع کے مطابق وی پی این کی بندش کے حوالے سے ایک ٹرائل کامیابی سے مکمل کرلیا گیا ہے جبکہ دوسرا ٹرائل آئندہ دنوں میں کیا جائے گا۔
پی ٹی اے ذرائع کا مؤقف ہے کہ غیر رجسٹرڈ وی پی این سکیورٹی رسک ہیں جس سے حساس ڈیٹا تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
بہرحال یہ ایک انتہائی دلچسپ صورتحال بن گئی ہے، ن لیگ کی حکومت کو سمجھ نہیں آرہی کہ چیزوں کو کیسے کنٹرول کرے، اب اس نے وی پی ان سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل سے عوام کی ذہن سازی کرنی چاہی لیکن یہ خود الٹا اس کے گلے پڑگئی ہے۔
ویسے ن لیگ حکومت کے اقدامات سے یوں لگ رہا ہے کہ جیسے ان کو ہمیشہ اقتدار میں رہنا ہے اور پھر کبھی اپوزیشن کی سیاست نہیں کرنی، لیکن کل کلاں کو یہی اقدامات خود ان کے گلے بھی پڑ سکتے ہیں کیونکہ وقت کا پہیہ گھومتے دیر نہیں لگتی ،پاکستان کی سیاسی تاریخ اس کی گواہ ہے۔
Leave a Reply