کوئٹہ:بلوچستان ہائیکورٹ نے کوئٹہ شہر میں سیف سٹی پروجیکٹ کے حوالے سے پیش کردہ رپورٹ مسترد کرتے ہوئے پروجیکٹ کے 830 کیمروں کی غیر فعالیت پر برہمی کا اظہار کیا ہے بچہ کے اغوا کیس کی سماعت بلوچستان ہائیکورٹ کے جسٹس کامران ملاخیل اور جسٹس شوکت رخشانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کی، ایڈیشنل چیف سیکریٹری شہاب علی شاہ، سیکریٹری آئی ٹی ایاز مندوخیل اور ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ عدالت میں پیش ہوئے ا یڈیشنل چیف سیکریٹری نے بچہ اغوا کے حوالے سے عدالت میں سر بمہر رپورٹ جمع کرائی، عدالت نے شہر میں سیف سٹی پروجیکٹ کے حوالے سے پیش کردہ رپورٹ مسترد کر دی،
جسٹس کامران ملاخیل بولے؛ 2012 سے اس پروجیکٹ پر کام ہو رہا ہے، لیکن نتائج تسلی بخش نہیںجسٹس کامران ملاخیل نے ریمارکس دیے کہ پولیس قانون کے مطابق تفتیش کر رہی ہے، پولیس بچے کی باحفاظت بازیابی کے لیے کوشش جاری رکھے، بچے کی بازیابی کے لیے دیگر اداروں سے بھی مدد لی جائے صوبائی سیکریٹری آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پنجاب فورینزک لیب کے ساتھ سیف سٹی پروجیکٹ چلانے کے لیے ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے ہیں، جس کے تحت پنجاب فورینزک لیب ٹیکنیکل تعاون فراہم کرے گی ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ سیف سٹی پروجیکٹ کو مکمل طور پر فعال کرنے کے لیے پی سی ون منظور ہو چکا ہے، جس کا ٹینڈر 22 نومبر کو اوپن ہوگاکوئٹہ سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت لگائے جانے والے 830 کیمروں کی غیر فعالیت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے سیکریٹری آئی ٹی کو اگلی سماعت پر سیف سٹی پروجیکٹ پر جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا
جسٹس کامران ملاخیل نے واضح کیا کہ رپورٹ پیش نہ کیے جانے پر معاملہ نیب کے حوالے کر دیا جائے گا، سماعت کے دوران وکلا نے انتظامیہ پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے ذمہ دار افسروں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا
Leave a Reply