قیام پاکستان سے لیکر پانچ ، چھ دہائیوں تک اِس ملک پر جاگیردار اور پاکستان کی حیثیت کے مطابق صنعت کار طبقات کی نمائندہ جماعتوں نے عدم برداشت اور ایک دوسرے کے ساتھ محاذ آرائی مگر مقتدرہ کے ساتھ تعاون اور سرپرستی کی شکل میں یکے با دیگرے تمام دورانیوں یا وزارتِ عظمیٰ کے تبدیلیوں کی صورت میں ملک پر باری باری حکومت کی ہے۔
اِن جماعتوں نے 1970ء کی دہائی سے لے کر دورِ رواں تک عوام کی عملی تائید و حمایت یا منشا اور رضا کے بغیر مقتدرہ کی فرمائش اور انتخابِ نظر کے تحت اْنہی کے زیر سایہ اور ہدایات پر ملک پر حکمرانی کی ہے لہٰذا ملک کی تاریخ میں پی ٹی آئی کی تشکیل سے قبل کبھی پی پی اور کبھی مسلم لیگ نواز مقتدرہ کے ساتھ مل کر برسر اقتدار رہی ہیں البتہ ملک کی معاشی پالیسیاں یا اہداف کا تعین ہو یا پھر اندرونی اور بیرونی سمیت تمام تر اہم ترین پالیسیاں اور منصوبے ہوں ،اِن کی ترتیب اور تعین میں مذکورہ جماعتوں اور ان کی قیادت سے زیادہ مقتدرہ با اختیار رہا ہے۔
یہاں پر اگر کہا جائے کہ مذکورہ دونوں پارٹیاں اختیارات کے بغیر مقتدرہ کے دست بستہ گماشتوں ، چھوٹوؤں اور مٹھائی خوروں کے طور پر شریک اقتدار رہی ہیں تاکہ انسانی حقوق ، عوامی اقتدار اور جمہوریت کی موجودہ صدی میں عملاً نہ سہی تو کم از کم دکھاوے کے طور پر دنیا کو تاثر دیا جا سکے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں انسانی حقوق ، اختیارات ، جمہوری اقدار اور عوام کے اقتدار کی عظمت کا خیال رکھا جاتا ہے،تو یہ بات حقائق کے منافی اور غلط ہر گز نہیں ہے لیکن پاکستانی جمہوریت ملک کے اندر محکوم طبقات اور مظلوم اقوام کے لیے کارگر کبھی نہیں رہی ہے جو جدید دور کے جمہوری اقتدار کی رْوح اور معنوعیت پر پورا اْتر سکے۔
موجودہ دانشورانہ ، مربوط اور معلوماتی دور میں آج کل کچھ عناصر کی جانب سے کسی ملک کے اندرونی مسائل ، تضادات ، اختلافات اور معاملات یا فتنوں میں دوسرے ممالک کو پرے اور دْور رہنے کی تلقین اور لکچرز نے ایک ہدف ، مْہم اور نعرے کی شکل اختیار کر لی ہے یوں تو غیر متزلزل عزم اور ارادے کے ساتھ اِس روش کو بنیاد بنا کر ( تصادم اور کشیدگیوں کی بجائے ) ہمسایوں کے ساتھ دوستانہ اور کاروباری مراسم بڑھانا اور اسے ایک مستقل پالیسی کے طور پر اپنا کر چلنا نہ صرف ایک قسم کی دْور اندیشانہ اور قابلِ ستائش اقدام بلکہ دور جدید کی اولین ضرورت ہے موجودہ دور میں پوری دنیا اس حکمت عملی پر کاربند ہے کہ تضادات ، اختلافات اور فروعی مسائل پر متصادم مفادات رکھنے کے باوجود کاروبار اور تجارت کے میدانوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمکاری اور تعاون کے سلسلے جاری ہیں لہٰذا اس پالیسی کے ساتھ اختلاف رکھنا ایک قسم کی کم عقلی اور جہالت ہے لیکن مذکورہ اصول اور ضوابط کو پیمانہ بنا کر دیکھا جائے تو آج کل جو لوگ اس پالیسی کی وکالت کر رہے ہیں عہد رفتہ اور سوویت روس کے دور میں بلکہ اْس دور کے بعد بھی یہ لوگ عملاً اِس پالیسی کے برخلاف مصروفِ عمل رہے ہیں۔کوئی کہے یا ملک کے اندر بظاہر اس کھلے راز کو جبر کے سہارے دبا دیا جائے تو زورآروں کے دست و بازو میں ممکن ہے کہ اتنی قوت رہے لیکن یہاں پر سوال یہ ہے کہ ان ثبوتوں کو کس طرح چھپا دیا جائے جس سے پوری دنیا پوری طرح واقف ہے کہ انہی عناصر کے پیشرؤں نے سرد جنگ اور افغان جنگوں کے دوران اپنا مستقبل اور بقا کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ہی سہی سامراجی کیمپ کے ساتھ روزِ اوّل سے ہر قسم کا تعاون کیا ہے۔
اب اِس حقیقت کو کوئی دبانا چاہے تو کس طرح دبا سکتا ہے جو روز روشن کی طرح دنیا پر عیاں ہے اس سے جان چھڑانے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ ماضی کی غلط پالیسیوں اور اقدامات کو مان کر دوبارہ انہیں دہرانے سے باز آ جانے کا اعلانیہ اور عملی طور پر تہیّہ کیا جائے جس میں جان بخشی کی گنجائش موجود ہے لیکن دور رواں تک ہم اپنی پالیسیوں پر گامزن رہ کر دنیا کو لکچر دیں تو اس قسم کے لکچرز موثر یا دنیا کے لیئے قابلِ قبول نہیں ہوا کرتے۔ اس کے لیئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی پالیسیوں میں عملاً تبدیلی پیدا کر دیں ، ماضی کی غلط پالیسیوں کو مان کر اور معذرت کر کے آئندہ کے لیئے ان کو ترک کرتے ہوئے دنیا کے ساتھ کاروبار اور تجارت کی ابتدا کر دیں اور نئے سرے سے امن کے ساتھ زندگی کا آغاز کریں ۔
یہاں پر یہ بھی یاد رکھنا چایئے کہ تجارت اور کاروبار کو بڑھاوا دینے یا بیرونی سرمایہ کاروں کو ملک میں لانے کے لیئے پْر امن سیاسی ماحول کے ساتھ ساتھ مستقل اور مسلسل شکل میں غیرضروری دفتری پابندیوں اور بندشوں سے آزاد معاشی پالیسیاں اپنانے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ہی تشدد اور دہشت گردی کے بنیادی اسباب و علل اور سرچشموں پر توجہ دے کر اْن کو مزید پھیلانے اور وسعت دینے کے اسباب پیدا کرنے کے برعکس گفت و شنید ، مثبت اور تعمیری اقدامات کے ذریعے اْن بنیادوں کو سرے سے ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس کے علاوہ علم و سائنس اور ہْنر کے میدانوں میں دنیا کے برابر مقام و مرتبت حاصل کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ملک میں مقتدرہ نے جب سے پی ٹی آئی کا قیام عمل میں لائی ہے یہ ملک گزشتہ چودہ ، پندرہ سالوں سے سیاسی عدم استحکام ، دہشت اور کشاکش کی زد میں ہے۔
موجودہ دور میں پارٹیوں کی صف بندیوں کو اگر دیکھا جائے تو برائے نام ملک گیر پارٹیوں میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نواز + شہباز جو ملک کی بجائے پنجاب اور کے پی کے کی نمائندہ پارٹیاں ہیں اور پی پی( ویسے پی پی اس وقت عملاً سندھ کی ایک پارٹی ہے مگر وہ چونکہ بضد ہے کہ ہم ملک گیر پارٹی ہیں اس لئے ہم فرمائشی بنیاد پر پی پی کو ملک گیر مان ہی لیتے ہیں ورنہ سندھ سے باہر بلوچستان میں ان کے نمائندے اگر دیکھے جا سکتے ہیں تو وہ سب مقتدرہ کی عطا کردہ داد اور تحفے ہیں ۔
ادھر مقتدرہ کے ساتھ اگرچہ پی ٹی آئی کی محاذ آرائی زوروں پر ہے مگر اب تک کے دیدہ آثار سے صاف ظاہر ہے کہ ایک مخصوص و موثر ادارہ اور عدلیہ سمیت پنجاب کی مڈل کلاس کے اندر پی ٹی آئی کے متعلق ہمدردانہ جذبات شدت کی حد تک موجود ہیں اس لیئے پی ٹی آئی کو بلوچ یکجہتی کمیٹی اور پی ٹی ایم کی طرح دبانا یا الزامات لگا کر ان کے خلاف راست اقدام اْٹھانا آسان نہیں بلکہ گمان کی حد سے پرے ہے۔ اِس ملک کی تاریخ میں آج تک کسی بھی جماعت میں اتنی سکّت نہیں رہی ہے کہ وہ مقتدرہ کو براہ راست چیلنج کرے مگر ادارہِ خاص ، عدلیہ اور پنجاب کی مڈل کلاس کے اندر ہمدردیاں رکھنے کے سبب پی ٹی آئی کے پاس یہ سکت ، صلاحیت ، کمال اور جرات موجود ہے کہ وہ مقتدرہ کو چیلنج کر سکتا ہے ملک کے عوام دراصل مقتدرہ کی سخت گیریوں سمیت مذکورہ پارٹیوں کی پالیسیوں سے تنگ آ چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا کے دیگر عوام کی طرح ان کو جینے کے تمام تر حقوق اور آزادیاں ملیں، وہ پرنٹ ، ریگولر اور سوشل میڈیا یہاں تک کہ وی پی اینز پر روز روز کی غیر ضروری سختیوں اور بندشوں سے بیزار ہیں اور آزادی کے ساتھ جینا چاہتے ہیں ۔
اِس کے ساتھ یہ بھی کہ ملک کے عوام نے سب کچھ لْٹا کر برداشت کی حد اور انتہاؤں تک خاص لوگوں کے لیئے بہت کچھ کر دیا ہے پر ضرورت اب اِس امر کی ہے کہ خاص لوگ عوام کی حالتِ زار پر ترس کھا کر اپنی سرمستیوں اور عیاشیوں کو کم بلکہ ختم کر دیں تاکہ عوام پر روزِ محشر کے برابر بارِ گراں میں کمی آجائے اور وہ فکر و پریشانیوں سے نجات پا کر سْکون کے سائے تلے جی سکیں اور امن کے ساتھ مَر سکیں۔
Leave a Reply