پاکستان تحریک انصاف اپنی غلط اور انتشاری سیاست کی وجہ سے اب اندرون خانہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی ہے۔
24 نومبر کے احتجاج کی ناکامی کا ملبہ پی ٹی آئی کے رہنماء ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں جبکہ یہ بھی پی ٹی آئی کے اندر واضح نہیں تھا کہ 24 نومبر کا احتجاج کس مقام پر کیا جائے گا۔
بیشتر رہنماؤں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے کے حوالے سے مشاورت اور اتفاق رائے نہیں تھی مگر بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے ڈی چوک پر ہر صورت احتجاجی دھرنا دینے کے حوالے سے باقاعدہ ویڈیو بیان جاری کیا تھا اور کے پی کے میں پارٹی اجلاس کی صدارت کی تھی اور یہ بھی بتایا تھا کہ ڈی چوک پر دھرنا بانی پی ٹی آئی کا حکم ہے جس پر پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنماء اس احتجاجی دھرنے کے فیصلے سے ناخوش تھے۔
اب پی ٹی آئی رہنماؤں کے استعفے بھی سامنے آنے لگے ہیں واضح رہے کہ بشریٰ بی بی اور خیبرپختونخواہ کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کارکنان کو احتجاج کے دوران ہی چھوڑ کر خیبرپختونخواہ بھاگ گئے تھے جس سے کارکنان کی جانب سے بھی شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
بہرحال پی ٹی آئی اپنی انتشاری اور پرتشدد سیاسی پالیسی کی وجہ سے بند گلی میں داخل ہوتی جارہی ہے ۔
9 مئی کے بعد 24 نومبر کا احتجاج بھی پی ٹی آئی کے حلق میں پھنس گیا ہے اب خیبر پختونخواہ میں گورنر راج نافذکرنے کی تجویز کے بعد پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے حوالے سے سوچ بچار کیا جارہا ہے ۔
گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی نے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے سے متعلق قرارداد منظور کرلی۔
بلوچستان اسمبلی کا اجلاس اسپیکر عبدالخالق اچکزئی کی زیرصدارت منعقد ہوا۔
صوبائی وزیرسلیم احمد کھوسہ نے ایوان میں پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے حوالے سے قرارداد پیش کی۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت پی ٹی آئی پر فوری طور پر پابندی لگانے کو یقینی بنائے۔
قرارداد کے متن کے مطابق پی ٹی آئی ملک کی تاریخ میں انتشاری سیاسی ٹولے کی شکل اختیار کرچکی ہے۔
قرارداد میں یہ بھی کہاگیا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کی سکیورٹی فورسز کے خلاف قرارداد حقائق کے بالکل منافی ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اراکین نے اس قرارداد کی مخالفت کی، ان کا کہنا تھا کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی اچھی روایت نہیں ہے، جس کے بعد اپوزیشن اراکین ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔
بہرحال ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کے حوالے سے بڑی سیاسی جماعتیں ہمیشہ اس کی مخالفت کرتی آئی ہیں کیونکہ آمرانہ دور میں سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کی روایت پڑی ہے جسے ایک غیر جمہوری عمل تصور کیا جاتا ہے مگر پی ٹی آئی کی سیاست احتجاج اور پرتشدد دھرنوں سے بھری پڑی ہے۔
2014ء سے لے کر اب تک ان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
پی ٹی آئی دور حکومت میں سیاسی انتقامی کارروائیوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے کہ کس طرح سے مخالفین کو دیوار سے لگانے اور انہیں جھوٹے مقدمات میں جیل میں بدترین حالات میں رکھا گیا، یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔
اب پی ٹی آئی کی خیبر پختونخواہ حکومت کا خاتمہ تو پیچھے رہ گیا بلکہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے متعلق بھی غور کیا جارہا ہے۔
پی ٹی آئی جن حالات کا سامنا کررہی ہے یہ ان کے اپنے پیدا کردہ ہیں ۔
موجودہ حالات میں ایسا لگ رہا ہے کہ بعض پی ٹی آئی رہنماء پارٹی سے علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں جو کہ پی ٹی آئی کے لئے بڑا دھچکا ثابت ہوگا۔
اگر پی ٹی آئی پر پابندی لگ جاتی ہے تو کسی اور سیاسی پارٹی کے نام سے وہ اپنی سیاست جاری رکھیں گے مگر اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مزید زوال کی طرف جائیں گے۔
جو مقبولیت پہلے تھی 24 نومبر کے احتجاج کی ناکامی اور لیڈر شپ کے میدان سے غائب ہونے کے باعث وہ پہلے والی صورتحال نہیں رہی۔
پی ٹی آئی کا سیاسی مستقبل مکمل تاریک ہے کیونکہ اس احتجاج کی ناکامی سے اس کے ورکرز بھی مایوس ہوچکے ہیں ۔
Yahoo
پی ٹی آئی کی سیاسی پالیسی، اندرون خانہ اختلافات، پارٹی پر بندش، پی ٹی آئی کا مستقبل تاریک!
وقتِ اشاعت : 3 hours پہلے
Leave a Reply