آج سے چالیس سال قبل موجودہ انتشاری دور کی طرح باہمی اختلافات ،
عدم برداشت ، ایک دوسرے پر الزامات کی بھر مار یا غلط ثابت کرنے کی کوشش کر کے زیر کرنے اور کمتر دکھانے کی طرز عمل کو ترک کر کے مستقبل کے مادی و معروضی ضروریات ، تقاضوں اور مشکل حالات کو بالغ النظری ، باریک بینی اور فہم و فراست کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے درپیش حالات سے صف آرا ہونے کے لیئے اتحاد اور جدوجہد کی ضرورت نے ایک ہدف اور حکمت عملی کی شکل اختیار کر لی تھی تاکہ جو قوت جو روزِ اوّل سے بلوچستان پر نوآبادیاتی طرز پر حکمرانی کر رہی ہے، کے خلاف میدانِ سیاست میں مصروفِ عمل بلوچ قوم کے پیر و جوان متحد ہو کر ، آپس کے برادرانہ تعاون ، یکجہتی ، اور ہمکاری کو قومی سیاست کا منبع بنا کر آخر کار فتح پا کر بلوچستان کے مقدر اور مستقبل کو پْر امن اور محفوظ بنانے کے لیئے جدید دور کی جمہوری جدوجہد کے اصولوں کو ترقی و پیشرفت کی جانب آگے بڑھنے کے لیئے ایک دْور رس لائحہ عمل اور حکمت عملی کی شکل میں ترتیب دے کر سنجیدہ ، پْر خلوص اور عملی کوششوں پر کاربند رہا جائے۔
بلوچ قومی سیاست میں اِس قسم کی مثبت اور موثر صف بندی کی ابتدا نے ملک کے مقتدرہ پر اتناخوف اور لرزہ طاری کر دیا تھا کہ انہوں نے وقت ضائع کیئے بغیر( کہ مذکورہ حکمت عملی سیاسی بنیادوں پر برگ و بار لا کر اور جڑ پکڑتے ہوئے توانا ، تندرست اور ناقابلِ شکست بن جائے) سے پہلے اپنے پالے ہوئے مْہروں کو استعمال کر کے مذکورہ لائحہ عمل اور حکمت عملی کی ترتیب کار ، خالق اور محرک رہنما شہید وطن فدا احمد کو مْہلت دینے سے پہلے شہید کر دیا تاکہ ابھرتے ہوئے بلوچ نوجوان قیادت کو اِس نہج پر بِکھیر کر منشتر کر دیا جائے جو دوبارہ متحد اور منظم نہ ہو سکے۔
اس تقسیم کے بعد بلوچ سیاست میں ہم شکوہ جوابِ شکوہ یا الزام جوابِ الزامات کے ایک سلسلے کو دیکھ سکتے ہیں جو آج تک جاری ہے
اور ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔اس عمل سے جس طرح کہ پاکستان میں عوام مالی طور پر برباد جبکہ ملک کے پارلیمنٹ میں موجود نمائندے ، قائدین ، سیاستدان اور ایک خاص گروہ کے ساتھ منسلک صاحبان اور آلہِ کار شادو آباد ہیں اْسی طرز پر قدرت کی طرف سے سرسبز و آباد بلوچستان میں بلوچ وطن ، بلوچ قوم اور وہ پْر خلوص سیاسی کارکنان (جو پارٹی اور میدانِ سیاست میں درباری بننے کے لیئے آمادہ ہیں، نہ ہی جی حضورانہ آداب سے واقف ہیں) تباہ حال جبکہ قائدِ نامدار خود اور اْن کے کارداروں سمیت ہرکارے اور خاندان کے لوگ گْمان کے حدود اور قیود سے زیادہ آباد ، دولتمند اور امیر ہیں ۔
یہاں پر معذرت کے ساتھ اظہار کرنا پڑتا ہے کہ موجودہ دور میں ہم اس قسم کے بیشمار لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں جو ماضی قریب تک ہم جیسے تہِ دستوں ، لاچاروں اور کمزوروں سے بھی بدتر مالی صورت حال سے دوچار رہے ہیں
مگر آج وہ دولت مند ، امیر اور کبیر بن گئے ہیں اور کیوں نہ ہوں جس اندازِ تابعداری کے ساتھ اِن کارداروں کے قائدین اور مرشدوں نے مقتدرہ کی آشیرباد اور ملی بھگت سے بلوچستان میں کرپشن اور لْوٹ مار کا بازار گرم کر کے حکمرانی کے طرز کو رواج دے کر حکومت یا بلوچ قوم کی برائے نام نمائندگی کی ہے اس کا فطری ثمر اور منطقی انجام خود ان قائدین اور بلوچ عوام کے برائے نام نمائندوں کے ساتھ ساتھ اِن کے اْجھڑے چمن قسم کے کارداروں کا میر و امیر بننے کی صورت میں نتیجہ نکلنا تھا جسے آج لوگ مقدور بھر ہوش و گوش اور کھلے آنکھوں کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔
یہاں پر یہ سوال سر اْٹھاتا ہے کہ ان قائدین کی طرزِ سیاست اور نمائندگی میں بلوچ قوم اور بلوچستان کو کیا فائدہ پہنچایا، ورکروں کے ساتھ کیا کچھ ہوتا رہا ہے
اس دلیل کا اندازہ اس سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ گوادر پورٹ ( جو بنیادی طور پر بلوچ قوم اور بلوچستان کی میراث ہے ) کی آمدن میں سے ملک کے معروف معاشیات دان ڈاکٹر قیصر بنگالی کے بقول بلوچستان کا حصہ زیرو (0) پرسنٹ یعنی ایک پیسہ (اور وہ بھی پاکستانی پیسہ جو ٹکّہ سے بھی کمتر ہے ) نہیں ہے
یہاں پر یاد رکھیئے کہ فراہم کردہ یہ ثبوت یا دعویٰ ہمارا نہیں بلکہ پاکستان کی معاشیات کے مد و جذر سے واقف ایک بہت بڑے نام کا ہے ۔ سیندک پروجیکٹ میں سے بلوچستان کا حصہ فقط دو پرسنٹ ہے جو انتہائی حد تک کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے اور شماریات کی ترازو پر تولا جائے تو زیرو سے زیادہ اور بہتر نہیں ہے
کہ جس پر کسی کو ناز ہو۔ اس کے برعکس اگر دیکھا جائے تو یہ اقدام بلوچ قوم کے ساتھ ظلم و ستم ، اور لوٹ مار کی انتہا سے بھی بدتر اور ایک ناقابلِ برداشت روش ہے۔ یہی حال ریکوڈیک کا ہے
بلوچستان میں اِس قسم کے ایک دو نہیں بلکہ بیشمار پروجیکٹس ہیں جن سے صریحاً بے بہرہ ہونے کے سبب بلوچستان آج پسماندہ اور بلوچ قوم مسائل و مشکلات سے دوچار ہے
حالانکہ ملک کے حکمران چرب زبانی کی حد تک بلوچستان کو ملک کا شہرگ کہتے ہوئے نہیں تھکتے لیکن عملاً ان پر چْھری سے زیادہ تیز دھار خنجر چلانے کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔
بلوچستان اگر ملک کے لیئے شہرگ کی طرح رگِ جان کی حیثیت رکھتا ہے جس کے ساتھ زندگی اور موت کا اٹوٹ بندھن وابستہ ہے
تو پھر بلوچ سر زمین اور بلوچ قوم کو اْسی نسبت کے ساتھ ترجیحی نظروں اور بنیادوں پر دیکھا جانا چاہیئے تھا مگر بلوچستان کے ساتھ مقتدرہ کی روش سے لگتا نہیں ہے
کہ بلوچ قوم پاکستان کے لیئے اہم ہے۔
اس ملک کی مقتدرہ کے لیئے بلوچ سرزمین ضرور بلکہ حد سے زیادہ اہم ہے
جبکہ بلوچ قوم بارِ گراں کی مانند ناقابلِ برداشت ہے۔
مذکورہ طرز ہائے اعمال اور رویوں پر ردعمل نہ ہو ، کس طرح ممکن ہے بلوچ نوجوان جب بلوچستان کی افادیت ، مذکورہ حقائق ، مقتدرہ کے طرزِ عمل اور ناروا سلوک کے ساتھ ساتھ جب یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے پاس اپنا توکچھ بھی نہیں ہے اور اِس ملک کے حکمران جب بھی اور جس کے ساتھ سرمایہ کاری کی بات کرتے ہیں
تو ان کے پاس اثاثہ ریکوڈیک ، سیندک اور گوادر کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے
جو بیرونی ممالک اور سرمایہ کاروں کے لیئے پْر کشش بن سکے جبکہ پاکستان کے مقامی سرمایہ کار ملک کی غیرضروری پالیسیوں ، بندشوں ، بھتہ خوریوں، روز کے احتجاجوں اور شورشوں سے تنگ آ کر ملک سے بھاگ رہے ہیں
تو اس صورت حال میں بلوچ نوجوانوں کی جانب سے سخت ترین ردِ عمل ظاہر کرنا امرِ یقینی ہے
لہٰذا شائستہ ، قابلِ عمل اور مناسب ترین تجویز یہی ہے
کہ ملک ہو یا بلوچستان آپ مظلوم اقوام اور محکوم عوام کے ساتھ یکساں ، جمہوری اور انسانی سلوک روا رکھیں جہاں ہر کسی کے ساتھ بِلا رعایت عدل و انصاف ہو تو لوگ کیونکر اور کن اسباب کو بنیاد بنا کر احتجاج کر یں گے ،
شورش برپا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے یا تنگ آ کر آمادہِ جنگ رہیں گے۔
یاد رکھیئے کہ انسان آسانی کے ساتھ جان پر نہیں کھیلتا بلکہ زندگی کے حالات اور لاچاریاں انسان کو اِس جانب دھکیل دیتی ہیں موجودہ دور میں یہ تو سب کو معلوم ہے کہ نوعِ انسانی نے غلامی سے لیکر سرمایہ داری اور کمیونزم یا یوں کہیئے کہ فلاحی معاشی نظامِوں اور طرزِ حکومتوں تک ترقی و پیش رفت کے میدانوں اور مسافت میں جو مصائب برداشت کی ہیں ان تمام تبدیلیوں اور طلاطموں کے پیچھے سماجی انصاف کے مقابلے میں نا انصافیاں بنیادی ، اہم ترین اور محرکانہ کردار کی حامل رہی ہیں لہٰذا ملک کے حکمرانوں کو جبر و تشدد ، بندشوں اور سخت گیریوں کو ایک طرف رکھ کر عملی و فراخدلانہ اقدامات ،
صبر و تحمل ، برداشت اور بردباریوں سے کام لے کر اْن نوجوانوں کے ساتھ گفت و شنید کا بندوبست کرنا چاہیئے اور ان کے قومی وسائل اور ساحل کی آمدن میں سے جو قانونی ، جائز اور قومی حصہ اْن کا بنتا ہے بِلا حیل و حجّت فراہم کر دینا چاہیئے ،اس سے ًممکن ہے کہ حالات میں تبدیلی آجائے پاکستان کے دو قومی اکائیوں میں لوگ مقتدرہ کی پالیسیوں اور طرز عمل سے ناخوش ہیں تو ان دونوں اکائیوں میں درپیش مسائل ،
مشکلات اور تحفظات کو دْور یا کم اور ختم کرنے کے لیئے نمائندہ پارٹیاں بلوچستان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی اور کے پی کے میں پی ٹی ایم موجود ہیں جو ان اقوام میں عوامی تائیدوحمایت اور اثر رسوخ رکھتی ہیں اِن دونوں کے علاوہ وہ پارٹیاں ، قائدین اور نمائندے جو ملک کے پارلیمنٹ میں موجود رہی ہیں یا جو اس وقت تک موجود ہیں وہ سب مہرے تو بن سکتے ہیں
مگر عوام میں تائید و حمایت سے محروم ہیں جو کارگر ہو کر درپیش مسائل کے حل میں کردار ادا کر سکیں۔
ملک کے حکمران جب دشمن ممالک اور عناصر کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں تو مذکورہ جماعتوں کے ساتھ بات چیت میں کیا قباحت ہے؟
Leave a Reply