|

وقتِ اشاعت :   December 19 – 2024

پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کا گھناؤنادھندہ عرصہ دراز سے چل رہا ہے جو معصوم شہریوں کو بیرونی ممالک میں روزگارکا سنہرا خواب دکھا کران سے لاکھوں روپے لیکر یورپ سمیت دیگر ممالک غیر قانونی طور پر خطرناک راستوں کے ذریعے بھیجتے ہیں ۔پاکستان کے مختلف شہروں میں انسانی اسمگلرز عالمی اسمگلرز کے ساتھ ملکر کام کرتے ہیں۔
ماضی میں انسانی اسمگلرز پاکستان سے منسلک ایران کے سرحد سے براستہ روڈ ترکی، پھر کشتی کے ذریعے انہیں یونان پہنچاتے تھے۔
ایران سے ترکی تک کا سفر انتہائی درد ناک ہوتا ہے جس کا خود متاثرین کا تذکرہ کرچکے ہیں کہ انہیں انسانی اسمگلرز سفر کے دوران درجنوں افراد کے ساتھ ایک چھوٹی سی گاڑی میں ڈالتے ہیں، کھانے پینے سمیت کسی طرح کی سہولت نہیں دی جاتی، ہر ایک پوائنٹ پر گھنٹوں انہیں ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھا جاتا ہے، کھانے پینے کی اشیاء تک نہیں دیتے، بیشتر افراد کی موت اس پر خطر سفر کے دوران ہی ہوجاتی ہے جنہیں ویران جگہوں پر پھینک دیا جاتا ہے یعنی ایک انتہائی اذیت ناک طریقے سے یورپ کا سفر طے کرنا پڑتا ہے ۔
انسانی اسمگلرز شہریوں کو لالچ اور سہولیات سمیت یورپ کے سہانے خواب دکھا کر انہیں جال میں پھانس لیتے ہیں، پھر ان کا رویہ وحشت ناک ہوجاتا ہے۔
اب انسانی اسمگلرز نے ویزے کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچانے کا عمل شروع کیا ہے جس کی مثال لیبیا سے یونان تک پہنچنے والے پاکستانی افراد کا ہے جنہیں لیبیا کا ویزہ لگاکر پھر یونان تک پہنچایا گیا جہاں گزشتہ دنوں یونان میں کشتیوں میں سوار افراد کو یورپ تک لے جایا جارہا تھا کہ کشتیوں کو حادثہ پیش آیا۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق یونان میں کشتیوں کے حادثے میں جاں بحق پاکستانیوں کی مجموعی تعداد 40 تک پہنچ گئی ہے۔
یونانی کوسٹ گارڈز نے سمندر میں ریسکیو آپریشن ختم کردیا اور کہا کہ لاپتا افراد کو مردہ تصورکیا جائے۔
اطلاعات کے مطابق یونان میں3 مختلف کشتی حادثوں میں35 پاکستانیوں کے جاں بحق ہونیکی اطلاعات ہیں اور مجموعی تعداد 40 تک پہنچ گئی ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق لیبیا میں ابھی بھی کم وبیش 5 ہزار پاکستانی موجود ہیں اور یورپ جانے کے خواہشمند یہ افراد مختلف پاکستانی اورلیبیا کے ایجنٹوں کے پاس ہیں۔
یہ پاکستانی باشندے قانونی طور پر پاکستان سے ویزہ لیکر لیبیا پہنچے ہیں۔
واضح رہے کہ تین روز قبل یونان کے جزیرہ کریٹ کے جنوب میں کشتیاں الٹنے کا واقعہ پیش آیا تھا۔
دوسری جانب ایف آئی اے نے یونان کی سمندری حدود میں غیرقانونی تارکین کے کشتی حادثے کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔
ایف آئی اے گوجرانوالہ نے کشتی حادثے کا پہلا مقدمہ اپنی مدعیت میں درج کیا اور کشتی حادثے میں ملوث دو سہولت کار بھی گرفتار کرلئے گئے ہیں، ایک ملزم کو گوجرانوالہ اور دوسرے کو گجرات سے گرفتار کیا گیا ہے۔
انسانی اسمگلرقمرالزمان عرف خرم ججہ کا نام مرکزی ملزم کے طور پر سامنے آیا ہے، خرم ججہ، اس کے بھائی عثمان سمیت فیملی کے 4 افراد مل کر گروہ چلاتے ہیں اور خرم ججہ لیبیا میں مقیم اور انسانی اسمگلنگ کے عالمی گروہ کے ساتھ منسلک ہیںجبکہ کوٹلی آزادکشمیرکے رہائشی شمریز کا نام بھی مرکزی ملزمان میں شامل ہے جبکہ واقعے میں 18 انسانی اسمگلرز کی گرفتاری کیلئے بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
اس سے قبل بھی یونان میں کشتی حادثات میں متعدد پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، انسانی اسمگلرز کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے جن کے خلاف پہلے بھی کارروائی کی گئی تھی مگر اس کے باوجود بھی یہ نیٹ ورک عالمی اسمگلرز کے ساتھ ملکر یہ غیر قانونی کام کررہے ہیں۔
ان کے خلاف موثر اور انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیاں تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معصوم شہری انسانی اسمگلرز کے ہاتھوں سے محفوظ رہ سکیںاور مزید خاندان اس طرح کے سانحات سے دوچار نہ ہوں۔