آواران: آواران زامیاد گاڑی مالکان کی جانب سے برو ہوٹل چیل کور کے مقام اور لباچ کراس پر آواران ٹو لسبیلہ روڈ کو تیل بردار گاڑیوں کے لیے احتجاجاً بلاک کر دیا گیا ہے تفصیلات کے مطابق آواران زامیاد گاڑی مالکان کی جانب سے 22دسمبر کو ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا اور ایک پر امن ریلی بھی نکالی گئی تھی ریلی برو ہوٹل سے شروع ہو کر ڈی سی کمپلیکس کے سامنے کے سامنے دھرنا کی کی شکل اختیار کر گئی تھی
دھرنے کے شرکاء سے ڈپٹی کمشنر آواران نے ملاقات کی اور انکے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کی۔آواران زامیاد گاڑی مالکان نے آواران ٹو لسبیلہ تک زامیاد گاڑیوں کو تیل کی سپلائی پر پابندی،زامیاد گاڑیوں کے لسٹ کی بحالی کے لیے معاہدہ کیا گیا ڈپٹی کمشنر آواران نے تمام مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی زامیاد گاڑی مالکان کی جانب سے دو دن تک دھرنا ختم کردینے اعلان کر دیا گیا تھا جبکہ انہوں کہ کہا کہ اگر ہمارے مطالبات منظور نہیں ہوئے ہم 27 دسمبر کو آواران ٹو لسبیلہ روڈ کو بلاک کریں گے جبکہ انکے مطالبات منظور نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے انہوں نے آواران ٹو لسبیلہ روڈ کو تیل سپلائی کرنے والے گاڑیوں کے لیے بلاک کردیا گیا۔
چار گھنٹے گزرنے کے بعد ڈی ایس پی آواران عبدالقدوس بلوچ نے دھرنے کے شرکاء سے ملاقات کی اور انکے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔زامیاد گاڑی مالکان نے کہا کہ عام عوام کے لیے روڈ کو کھول دیا گیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ آواران سے لسبیلہ تک بیک گاڑیوں کو اجازت دی گئی ہے جبکہ غریب زامیاد مالکان کیلئے روڈ بند کردیا گیا ہے جو کہ غریب زامیاد گاڑی مالکان کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے انہوں نے کہا کہ روزانہ سینکڑوں کی تعداد بیک گاڑیاں لاکھوں لیٹر ڈیزل پیٹرول آواران سے لسبیلہ تک لے جاتے ہیں اور مختلف چیک پوسٹوں سے بھاری بھتہ دینے کے بعد لسبیلہ پہنچ جاتے ہیں مگر زامیاد گاڑی والوں کو لسبیلہ جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے،انہوں نے کہا کہ جب تک ہمارے مطالبات منظور نہیں کئے گئے تو آواران ٹو لسبیلہ روڈ کو صرف تیل بردار گاڑیوں کے لیے بلاک کردیا جائے گا جبکہ عام عوام کیلئے روڈ کھلا رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دو دن تک ہمارے مسائل حل نہ کیے گئے تو آواران کے مختلف مقامات پر تیل بردار گاڑیوں کیلئے روڈ کو بلاک کیا جائے گا۔ اس موقع پر زامیاد یونین کے صدر طاہر داؤدی ،واذدار محمد بخش ،قادر بخش ساجدی ،نعیم احمد میروانی ،عبدالسلام میروانی اور دیگر زامیاد گاڑی مالکان موجود تھے۔
Leave a Reply