کوئٹہ:رہبر جمعیت مولانا محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ مملکت کی تاریخ بھی ہوتی ہے اور متعین جغرافیہ بھی ہوتا ہے پاکستان کی نہ تو تاریخ ہے اور نہ ہی کوئی جغرافیہ ہے بلکہ یہ ملک دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی طاقتوں کے جانب سے مفتوحہ علاقوں میں براہ راست حکمرانی چھوڑ کر نیابتی حکومتیں تشکیل دینے کے نتیجے میں بسائی جانے والی چھانی ہے
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی بلوچستان کے زیر اہتمام صوبائی امیر مولانا ہدایت الرحمن کے زیر صدارت منعقد ہونے والے قبائلی مشاورتی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ دوسرے جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز کے سطح پر طے کیا گیا کہ اگر ہم براہ راست حکومت کے بجائے نیابتی حکومتیں تشکیل دیں تو اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ مقامی عوام یہ نہیں سوچیں گے کہ ان کے اوپر اجنبی لوگوں کی حکومت ہے اس صورت میں یہ بھی نہیں ہوگا
کہ زحمت ہم اٹھائیں اور خدمت بیگانہ مقامی لوگوں کا کریں اور اگر کبھی مغربی ممالک کے درمیان دوسرے خطوں پر کنٹرول کے حوالے سے آپس میں تصادم ہوتا ہے تو یہ تصادم براہ راست مغربی ملکوں کے درمیان نہیں ہوگا چنانچہ اس تصور کے ساتھ مقامی نیابتی حکومتیں وجود میں لائی گئی جن کی اصل حیثیت بلدیاتی اداروں کی ہے ان بلدیاتی اداروں میں دو قسم کے ملازمین پیدا کئے گئے جن میں باوردی ملازمین اصل اختیار والے ہیں جن کا کام پالیسیوں کی تشکیل ہے اور بغیر وردی کے سول ملازمین سیاستدان کہلاتے ہیں
جن کا فرض منصبی ان پالیسیوں کی تشہیر اور تطبیق ہے انہوں نے کہا کہ امریکہ مردہ باد کا نعرہ ہمارا اپنا نہیں بلکہ ہمارے زبانوں پر چڑھایا گیا ہے جب ہم یہ نعرہ لگاتے ہیں تو وردی والے ملازمین امریکہ کے پاس جاکر کہتے ہیں کہ کرایہ دو دبانا ہمارا کام ہے اور بغیر وردی کے ملازمین ان کے پاس جاکر کہتے ہیں کہ عہدہ دو ورغلانا ہمارا کام ہے انہوں نے کہا کہ امن معاش اور علم کے طلب میں ہم میں سے ہر ایک مغرب میں بسنا چاہتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اپنے ہاں امن کے بجائے بدامنی، علم کے بجائے جہالت اور معاش کے بجائے فقر ہے انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک اپنے ملک، قومی مفادات اور عوام کے جان و مال کو پیش آنے والے ہر خطرے کا دنیا میں ہر جگہ تک تعاقب کرتے ہیں
جبکہ یہاں جرنیل، سیاستدان، علما، عوام اور یہاں تک کے بچے تک قتل ہوجاتے ہیں جن کا کام مجرموں کی تلاش ہے وہ اپنا فرض تو پورا نہیں کرتے اور اگر قاتل خود ٹی وی پر آکر اعتراف جرم کرے تو اسے سزا نہیں ملتی انہوں نے کہا کہ ام مسلمہ کا مجموعی کردار قول و فعل، زبان و دل، ظاہر و باطن اور آج اور کل میں تضاد پر مبنی ہے یہاں کمزور مفادات کے پیچھے بھاگتے ہیں اور طاقتور خونخوار درندے ہوتے ہیں اس کردار کے انسان دنیا میں سکون اور آخرت میں نجات سے محروم ہوتے ہیں اگر ہم نے اپنے انجام کو تبدیل کرنا ہے تو اس کیلئے ہمیں اپنے کردار کو تبدیل کرنا ہوگا کردار میں تبدیلی کئے بغیر اس کے انجام کو بدلنے کی خواہش نامعقول اور ناممکن ہے –