کوئٹہ:جسٹس محمد کامران خان ملاخیل پر مشتمل عدالت عالیہ بلوچستان کے ڈویژنل بینچ نے گرینڈ ہیلتھ الائنس کے مطالبات، ہڑتال اور دھرنا سے متعلق دائر آئینی و توہین عدالت درخواستوں کی سماعت کی۔سماعت کے دوران جسٹس محمد کامران خان ملاخیل نے محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام کو حکم دیا کہ محکمہ کے کسی اہلکار کو یا تو اس کی ڈیوٹی سے انکار کرنے، کسی ہڑتال کی کال دینے یا اس معاملے میں کسی جلوس اور دھرنے کا اعلان کرنے کے لیے آزاد نہیں چھوڑا جائے۔
گرینڈ ہیلتھ الائنس کے عہدیداروں نے جلوس/ دھرنا کو منسوخ کرنے کے ساتھ ساتھ محکمہ صحت میں کسی قسم کی ہڑتال نہ کرنے کا مزید عہد کیا۔ ڈویژنل بینچ کے معزز جج نے سیکرٹری محکمہ صحت کو ہدایت کی کہ وہ اپنے ڈومین میں اور ڈی جی۔ ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ سروسز مذکورہ عہدیداروں کے خلاف کوئی زبردستی کارروائی شروع نہ کریں اور اگر ان میں سے کسی کو برطرف کیا گیا ہے یا ان کے خلاف کوئی حتمی حکم جاری ہونے کا امکان ہے تو اسے بھی روکا جائے۔ تاہم، برطرف شدہ ملازمین مجاز اتھارٹی کے سامنے اپیل دائر کریں جس پر ان کے عہد کی روشنی میں غور کیا جائے۔
معزز جج نے ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ محمد بلوچ کو ہدایت کی کہ دھرنا کو واپس لینے کے بعد جی ایچ اے کے ملازمین کے خلاف مزید کارروائی نہ کریں۔ تمام ملازمین خاص طور پر تمام ہیلتھ ایسوسی ایشنز کے عہدیداران کو ہدایت کی کہ وہ اپنی تعیناتی کی جگہ پر جوائن کریں، یا متعلقہ اہل افسران کی حکم کی عدم تعمیل کی صورت میں، محکمہ صحت کے حکام ان کے ساتھ سختی سے قانون کے مطابق پیش آئے۔ عدالت میں موجود جی ایچ اے کے عہدیداروں کو ہدایت کی کہ وہ معاہدہ جمع کرائیں، جبکہ سیکرٹری محکمہ صحت صرف ان اہلکاروں کی زیر التواء تادیبی کارروائیوں کو نمٹائیں جنہوں نے مذکورہ بالا اثر سے معاہدہ دائر کی ہے۔ اس آرڈر کی کاپی آگے متعلقہ حکام کو معلومات اور تعمیل کے لیے ماہر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بھیجی جائے۔
اس مقدمے سے متعلق رپورٹ دو جنوری 2025 تک جمع کرائی جائے۔اس سے بیشتر ڈویژنل بینچ کے معزز جج کے سامنے23 دسمبر 2024 کے حکم کی تعمیل میں، ماہر ایڈیشنل اٹارنی جنرل ، سیکریٹری محکمہ صحت اور ڈی جی صحت نے تعمیل کی رپورٹس جمع کرائی۔ اسی طرح ڈی جی پی جی ایم آئی نے بھی رپورٹ پیش کی۔
عدالت کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ آج تک 81 سے 85 کیسز میچور ہو چکے ہیں اور جیسے ہی دستاویزات کا عمل مکمل ہو گا متعلقہ افراد (پی جی ایم آئی ٹرینیز) کو ان کے بقایا جات اور ماہانہ وظیفہ کی ادائیگی کر دی جائے گی۔ تاہم، جیسا کہ ہمارے پہلے آرڈر میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کوئٹہ (‘BMCH’) کے ہاؤس آفیسرز کو وظیفہ / بقایا جات کی ادائیگی کے سلسلے میں نادانستہ طور پر 187,689,365/- روپے بتایا گیا ہے اور اس سے متعلق خط و کتابت بھی ہوئی ہے اور آج مذکورہ رقم پہلے ہی پی جی ایم ائی سے واپس لے لی گئی ہے اور سیکرٹری صحت کو منتقل کر دی گئی ہے۔ اس کے بعد یہ دوبارہ محکمہ خزانہ، حکومت بلوچستان کو منتقل ہو جائے گا۔ ماہر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انہیں مطلع کیا گیا ہے کہ اس سلسلے میں آج ضروری کام کرنے اور رقم کے متعلقہ ہیڈ کو پنچ کرنے کے بعد، اسے میڈیکل سپریٹینڈنٹ بولان میڈیکل کالج ہاسپٹل کو منتقل کردیا جائے گا۔ معزز جج نے توقع کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری محکمہ صحت اور خاص طور پر ہاشم شاہ، ایڈیشنل: سیکرٹری محکمہ صحت اس عمل کی نگرانی کریں گے اور پی جی ایم آئی ٹرینیز اور بی ایم سی ایچ کے ہاؤس آفیسرز کو وظیفے کے بروقت اجرائکو یقینی بنائیں گے۔ ایس ایچ اوز پولیس سٹیشنز سول لائن اور بروری نے گرینڈ ہیلتھ الاؤنس (“GHA”) کے عہدیداروں پر خدمات کو ظاہر کرنے والی رپورٹس جمع کرائی ہیں۔ سماعت کے دوران جب یہ کیس صبح اٹھایا گیا۔
تو بتایا گیا کہ محکمہ صحت کے ملازمین جی ایچ اے کے بینر تلے تاحال ہڑتال کر رہے ہیں اور صوبائی اسمبلی کے سامنے دھرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ جی ایچ اے کے بینر تلے محکمہ صحت کی مختلف ایسوسی ایشنز کے عہدیداروں کے ہمراہ عدالت میں موجود عہدیداروں کی مناسب طوالت سے سماعت کی گئی اور انہوں نے عدالتی مشاہدات کے بعد اپنا عرض پیش کرتے ہوئے تفصیلات سے آگاہ کیا۔ جو کہ صوبائی اسمبلی کے سامنے دھرنا ختم کر دیا گیا ہے۔ تاہم، انہوں نے مختلف مسائل کے حوالے سے اپنی شکایات کو افسوس کے ساتھ پیش کیا، اور جب مذکورہ افراد اور جی ایچ اے کے عہدیداروں کی طرف سے اٹھائے گئے مسائل کے حل کے بارے میں ماہر ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا گیا توسیکرٹری محکمہ صحت کے ساتھ ساتھ ڈی جی محکمہ صحت نے بتایا کہ بعض معاملات پالیسی کی سطح پر زیر غور ہیں اور چونکہ یہ مسائل دیرپا ہیں اور بغیر کسی ٹھوس پیش رفت کے معدوم ہیں تاہم اب عدالت کی ہدایت کے بعد جی ایچ اے کے بدکردار اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائیاں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ ان کے مطالبات پر بھی توجہ دی گئی ہے ماہر ایڈیشنل اٹارنی جنرل اس لیے اس سلسلے میں جامع رپورٹ درج کرنے کے لیے وقت مانگتا ہے۔
Leave a Reply