|

وقتِ اشاعت :   2 days پہلے

لورالائی:جمعیت علما ء اسلام بلوچستان کے امیرو سینیٹر مولانا عبدالواسع نے کہا ہے کہ اس پر فتن دور میں بحیثیت ایک مسلمان اور عالم کے ہمیں مایوسی کے بجائے عملی میدان میں اتر کر مسلمانوں کی رہنمائی کرنی ہے جو کام جمعیت علماء اسلام عالمی سامراجی قوتوں کے مدقابل ایک منظم جماعت میں بحیثیت ایک متحدہ قوت کے کر رہی ہے اس میں اپنے حصے کا کام کرتے جانا ہے جو ہمیں اتحاد، اخلاص، قربانی اور عمل کے زریعے ثابت کرنا ہیں۔ اگر ہم کلمہ کی بنیاد پر متحد ہو جائیں تو دشمن کو شکست دینا ممکن ہے تاریخ گواہ ہے کہ حق ہمیشہ غالب آتا ہے بشرطیکہ اہل حق قربانی اور جدوجہد کے جذبے سے سرشار ہوں۔یہ بات انہوں نے مدرسہ ناصر العلوم لورالائی کے سالانہ دستار فضلیت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

مولانا عبدالواسع نے کہا کہ یاد رکھیں، حق و باطل کی یہ جنگ ہمیشہ جاری رہے گی آپ کو اپنی ذمہ داری کا ادراک کرنا ہوگا اور اپنی تعلیم، کردار اور اتحاد سے حق کے علمبردار بننا ہوگا یہی ہمارے ایمان کی حقیقت اور کامیابی کی کنجی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت قائد ملت اسلامیہ حضرت مولانا فضل الرحمان اپنی کامیاب حکمت عملی کے زریعے اہل اقتدار کو اپنے موقف منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں ان کی فہم ، علم او دانشاور سب سے بڑھ کر دین اسلام اورمدارس دینیہ کیلئے مخلصانہ رویہ ہی ہے جس کے ذریعے انہوں نے پاکستان کی پارلیمان سے دینی حلقوں کے دو اہم مطالبات کو منظور کروایا پہلا مطالبہ ملک میں سود کے نظام کے خاتمے کی طرف بتدریج پیش رفت ہے جو مذہبی طبقے کا ایک دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔ دوسرا مطالبہ دینی مدارس کی رجسٹریشن کو محکمہ تعلیم کے بجائے پرانے سوسائیٹیز ایکٹ 1860 کے تحت لانے کا تھا تاکہ مدارس کی خودمختاری اور مذہبی آزادی کو برقرار رکھا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے دینی مدارس کے حقوق اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے نہ صرف پارلیمنٹ میں اپنی جماعت کا مضبوط مؤقف پیش کیا بلکہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے یہ مطالبات تسلیم کروانے میں اہم کردار ادا کیا ان کی قیادت کے باعث ملک کے مذہبی حلقوں نے اْن کے ان اقدام کو سراہا اور انہیں دینی تعلیم کے تحفظ کے لیے ایک مؤثر آواز قرار دیاتاہم صدر آصف علی زرداری کی جانب سے بل کو اعتراضات کے ساتھ واپس پارلیمان بھیجنے کے بعد مولانا فضل الرحمان نے اپنی حکمت عملی مزید سخت کر دی اور حکومتی اتحاد پر علما کو تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے نظریاتی موقف پر قائم ہیں بلکہ اپنے مطالبات کے لیے کسی بھی سیاسی دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی اس کارکردگی نے انہیں مذہبی اور سیاسی حلقوں میں مزید مقبولیت دلائی اور یہ ثابت کیا کہ وہ دینی معاملات کے تحفظ کے لیے اپنی سیاسی حیثیت کو بھرپور انداز میں استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔انہوں نے فارغ تحصیل طلباء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کو دنیا میں ایک ہمہ گیر تعلیمی، تربیتی اور سماجی انقلاب کے لیے معلم بنا کر بھیجا آپؐ کی بعثت کا مقصد نزول کتاب، تعلیمِ کتاب و حکمت اور تزکیہ نفس تھا قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان فرائض کا ذکر ہوا ہے سورۃ البقرہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے ذریعے ان مقاصد کو واضح کیا گیا ہے نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ مجھے اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے تعلیم کے تمام مراحل میں تزکیہ نفس بنیادی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہی انسانیت کی فلاح و بہبود کا ذریعہ ہے۔انہوں نے کہا کہ نبی کریمؐ نے اپنے فرائضِ منصبی میں تعلیم کے ساتھ تزکیہ اور تربیت پر بھی زور دیا آپ ؐ نے دارِ ارقم کو پہلی درسگاہ بنایا اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے ساتھ صفہ کی درسگاہ قائم کی ان درسگاہوں میں زیرِ تربیت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اعلیٰ کردار کے حامل اور معاشرے کے لیے نفع رسا ثابت ہوئے ان طلبہ نے دنیا کے لیے مشعل راہ کا کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں مسلم معاشرے اور بالخصوص پاکستانی معاشرے کی زبوں حالی کی بڑی وجہ اسوہ رسول ؐ سے رہنمائی نہ لینا ہے تعلیمی ادارے کردار سازی اور طلبہ کی تربیت میں نبوی طریقہ کار کو نظرانداز کر رہے ہیںنبی کریمؐ نے تعلیم اور تربیت کو ہمہ جہتی بنیادوں پر استوار کیاآپؐ نے اپنے زیرِ تربیت افراد کی ایمان اور اخلاق پر مضبوطی کے لیے مسلسل نصیحت فرمائی۔انہوں نے کہا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ایمان پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کی گئی جب ان کا ایمان مضبوط ہو گیا تو آپ ؐ نے ان کی ہمہ جہتی تربیت پر توجہ دی جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنی زندگیوں کو دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق ڈھال لیا اس یقین اور تربیت کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شرک، فحاشی اور دیگر برائیوں کو ترک کر دیا اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیاآج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ ملک کے اندر عصری تعلیم سے وابستہ نوجوان دین سے بیزار ہو رہے ہیں

اور مغربی افکار کے زیرِ اثر شک و شبہات کا شکار ہیں دینی تعلیم و تربیت کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں مسلم نوجوان ذہنی انتشار اور بے یقینی کا شکار ہیں مغرب سے درآمد شدہ نظام تعلیم اور معاشرتی اثرات نے اسلامی نظریات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وطن عزیز کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کی صحیح تربیت اور رہنمائی کی جائے اسوہ رسولؐ کے اصولوں کو اپناتے ہوئے طلبہ کی فکری اور اخلاقی تربیت کی جائے تاکہ وہ اپنے کردار سے نہ صرف اپنی زندگی بلکہ قوم و ملت کو بھی سنوار سکیں نبی کریمؐ کا تربیتی ماڈل ہر دور کے لیے مشعل راہ ہے اور اس پر عمل کر کے ہم موجودہ دور کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *