بلوچستان ملک کا نصف حصہ ہے۔
طویل ساحلی پٹی، قدرتی وسائل سے مالا مال یہ خطہ اپنی منفرد جغرافیائی اہمیت سے دیگر صوبوں سے بالکل الگ مقام رکھتا ہے مگر اس کے باوجود بلوچستان سب سے پسماندہ اور محروم صوبہ ہے۔
دیگر صوبوں کی ترقی کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے، انگنت مسائل سے دوچار ہے، اس جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔
انفراسٹرکچر، تعلیم، صحت، آبی قلت سمیت دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔
بلوچستان کی محرومی و پسماندگی کو صرف شورش سے جوڑنا زیادتی ہوگی، بلوچستان کا بجٹ دیگر صوبوں کی نسبت کم ہے جو کہ اکثرخسارے کا ہوتا ہے۔
بلوچستان میں جاری میگا منصوبوں، گیس، معدنی وسائل اور سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے سے بلوچستان کو اتنا فائدہ نہیں پہنچ رہا جتنے دیگر صوبے مستفید ہورہے ہیں۔
ملک کے دیگر صوبوں میں موٹر ویز تک بن گئے ہیں مگر بلوچستان کی قومی شاہراہوں کو دو رویہ تک نہیں کیا جاسکا، اس سے وفاقی حکومتوں کی ترجیحات کا پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے بلوچستان کی ترقی میں کتنا حصہ ڈالا اوراسے کتنی اہمیت دی۔
آج بھی بلوچستان اپنے محدود وسائل سے پہاڑ جیسے مسائل حل کرنے میں نبرد آزما ہے گوکہ بلوچستان میں مخلوط حکومتوں کی بیڈ گورننس بھی وجہ بنی ہے جہاں ایم پی ایز اور ایم این ایز نے اپنے حلقوں تک کی بہتری کیلئے کوئی مثالی کام نہیں کیا۔
بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے ایک مکمل جامع قومی پالیسی وفاقی سطح پر ہونی چاہئے تب جاکر محرومیوں اور پسماندگی میں کمی آ سکی ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی خود اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ کم رقم اور محدود وسائل سے ترقی ممکن نہیں۔
گزشتہ روز وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ویڈیو لنک کے ذریعے بلوچستان اسٹریٹجی سمٹ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 220 ارب روپے کے محدود ترقیاتی وسائل کے ساتھ پاکستان کے 43 فیصد رقبے پر مشتمل بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
صوبے میں بیشتر مسائل ترقیاتی منصوبوں پی ایس ڈی پی کی مس مینجمنٹ کی وجہ سے ہیں اور پی ایس ڈی پی بک پر پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے۔
گزشتہ سال 78 فیصد ترقیاتی اسکیموں کو ٹیکنیکل اپروول کے بعد بجٹ کا حصہ بنایا گیا اور حکومت پرعزم ہے کہ آئندہ بجٹ میں 100 فیصد منظور شدہ منصوبے بجٹ کا حصہ ہوں گے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کی شرح 40 فیصد رہی، تاہم موجودہ حکومت میں پہلی بار فروری میں یہ شرح 68 فیصد تک جا چکی ہے اور قوی امید ہے کہ جون تک 90 سے 92 فیصد تک پہنچ جائے گی۔
بہرحال بلوچستان کے بڑے منصوبوں اور معدنی وسائل میں بیرونی سرمایہ کاری کی جارہی ہے مگر اس سرمایہ کاری سے ملنے والے منافع و محاصل میں بلوچستان کو اس کا مکمل حصہ دیے بغیر بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کیا جا سکتا۔
بلوچستان کی ترقی کیلئے وفاقی حکومت کی سنجیدگی ضروری ہے۔
پنجاب اور سندھ میں انسانی وسائل پر بہت زیادہ کام ہو رہا ہے، تعلیم اور صحت کے اداروں میں بہت زیادہ کام ہو رہا ہے، جدید بس اور ریلوے سروسز جیسے بڑے منصوبے چل رہے ہیں مگر بلوچستان کے عوام بنیادی سہولتیں تک سے محروم ہیں لہٰذا بلوچستان کو وفاقی سطح پر اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔
بجٹ میں اضافہ، این ایف سی ایوارڈ سمیت بلوچستان کے اپنے میگا منصوبوں کا حق دیا جائے اور وفاقی حکومت اڑان پاکستان پر گروام میں بلوچستان کو زیادہ ترجیح دے، ان اقدامات سے بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا اور صوبے میں ترقی و خوشحالی آئے گی جو کہ خطے کی عوام کا حق ہے اور اسے پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
بلوچستان میں ترقی و خوشحالی وفاق کی سنجیدہ کوششوں کے بغیر ناممکن!
![](https://dailyazadiquetta.com/wp-content/uploads/edi-1-640x300.jpg)
وقتِ اشاعت : 3 hours پہلے
Leave a Reply