|

وقتِ اشاعت :   3 days پہلے

کوئٹہ :گوادر بک فیسٹیول کا تیسرا دِن بھی فیسٹیول میں شرکت کرنے والوں کے لئے دلچسپی کا مرکز بنا رہا۔

علم و ادب کے متوالے گوادر بک فیسٹیول کا دن بھر لطف اٹھاتے رہے۔ مختلف موضوعات پر منعقد مباحثوں اور دیگر سیشنز میں شرکا نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور وہ تمام سیشنز کو انہماک سے سے سنتے رہے۔ گوادر بک فیسٹیول کے تیسرے دن کل دس سیشنز منعقد ہوئے۔

پہلے سیشن میں خیرجان خیرول کی نظامت میں بلوچی فلموں کے معروف اداکار سرفراز محمد کے ساتھ نشست منعقد کی گئی جس میں سرفراز محمد نے اپنے فن اور اپنے فن سے متعلق اپنے تجربات شیئر کئے۔

اس موقع پر سرفراز محمد کو اداکاری کے میدان میں نمایاں کردار اداکرنے پر لائیو ایچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ بی بی سی سے وابستہ معروف صحافی وسعت اللہ خان نے سرفراز محمد کو پیش کیا۔ دوسرے سیشن میں ملک کے معروف صحافی مظہر عباس کی انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب A Journey Through Chaos کی رونمائی کی گئی۔ کتاب پر وسعت اللہ خان نے اپنا تبصرہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مظہر عباس نے اس کتاب میں پورے ملک کے حالات و واقعات کا احاطہ کیا ہے جو پڑھنے کے لاحق ہے۔

کتاب کے مصنف نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گوادر میں کتاب میلہ بلوچستان میں بسنے والے لوگوں کی کتاب دوستی کا مظہر ہے۔ مظہر عباس سے شرکا نے سوالات بھی دریافت کئے جن کا انہوں نے مدلل انداز میں جواب دیا۔ اِس سیشن کے موڈریٹر وحید نور تھے۔ تیسرے سیشن میں مبارک قاضی کی شاعری اور بلوچی ادب میں اس کی اہمیت کے موضوع پر گفتگو کی گئی جس کے پینلسٹ میں ڈاکٹر غفور شاد اور نوجوان ادیب زرنگار شامل تھے۔

جنہوں نے مبارک قاضی کو عہد ساز شاعر قرار دیتے ہوئے کہا کہ قاضی کا شعری اسلوب غیر معمولی تخلیق کا امتزاج ہے، قاضی کی شاعری عام لوگوں کے لئے ہے اور قاضی نے جو شعری اسلوب اختیار کیا ہوا تھا وہ لوگوں کے عین مزاج کے مطابق ہے جو استعارہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاضی کی شاعری ہر دور کی ترجمانی کرتی ہے۔ اِس سیشن کے ماڈریٹر عمران حاصل تھے۔

چوتھے سیشن میں تخلیقی ادب میں مادری زبان کی اہمیت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فاطمہ حسن اور انعام ندیم نے کہا کہ تخلیقی ادب میں مادری زبان کی اپنی اہمیت ہے پاکستان میں جتنی بھی مادری زبانیں موجود ہیں اور ان میں ادب تخلیق ہورہا ہے وہ ہر حوالے سے قابل ستائش ہے۔ اِس سیشن کے موڈریٹر مقبول ناصر تھے۔

پانچویں سیشن میں دو بلوچی کتابوں بے دستیں سریچک اور شوھاز شوھاز کی رونمائی گئی۔ بے دستیں سریچک افسانہ نویس یونس حسین کے افسانوں کا مجموعہ ہے جس پر تبصرہ کرتے ہوئے بلوچی زبان کے معروف ادیب ڈاکٹر اے آر داد، ڈاکٹر غفور شاد اور فضل بلوچ کا کہنا تھا کہ یونس حسین کی افسانوں کی یہ کتاب بلوچی ادب میں ایک اہم اضافہ ہے اور یونس حسین نے افسانہ نویسی کی تھکنیک کو استعمال کرتے ہوئے بلوچی زبان کے افسانوں کی یہ کتاب تخلیق ہے جو بہترین کاوش ہے۔

یونس حسین نے بھی اپنے خطاب کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ عمران رزاق نے شوھاز ِ شوھاز پر اپنا تبصرہ پیش کیا۔ اِس سیشن کے نظامت کے فرائض عبدالحلیم حیاتان نے اداکئے۔ چھٹے سیشن میں مونولوگ ایکٹ پیش کیا گیا جس کے مہمان بلوچی زبان کے معروف اداکار اللہ بخش حلیف تھے۔ ساتواں سیشن سماجی ترقی کے سیاسی تقاضے کے موضوع پر منعقد کیا گیا جس میں ڈاکٹر سید جعفر احمد نے انتہائی پر مغز اور دلائل پر مبنی گفتگو کی۔

اس سیشن کے موڈریٹر وسعت اللہ خان تھے۔ آٹھویں سیشن میں گوادر ماحولیاتی چیلنجز کے موضوع پر کلثوم بلوچ کی میزبانی میں گفتگو کی گئی جس کے پینلسٹ میں عبدالرحیم بلوچ، پزیر احمد بلوچ، وائس چیئرمین میونسپل کمیٹی گوادر ماجد جوہر اور گوادر ماہی گیر اتحاد کے رہنما یونس انور شامل تھے۔ جنہوں نے گوادر کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے جامع منصوبہ بندی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت گوادر شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ہمہ گیر اقدامات ہی اس کے اثرات کو کم کرسکتے ہیں۔

نویں سیشن میں رحمان مراد کی میزبانی میں بلوچی کہانیوں اور عالمی کہانیوں کی مماثلت پر ڈاکٹر بدل خان اور ڈاکٹر عبدالصبور نے تاریخی پس منظر کے پیش نظر بلوچی کہانی کی تاریخ بیان کی۔ گوادر بک فیسٹیول کے آخری اور دسویں سیشن میں ساحل مکران، تاریخ، جغرافیہ اور موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر نامور بلوچ تاریخ دان ڈاکٹر حمید بلوچ نے گفتگو کی۔ اِس سیشن کے ماڈریٹر ڈاکٹر منظور احمد تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *