گوادر:بلوچستان میں اس وقت لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین رخ اختیار کرچکا ہے۔ بلوچستان کے معروضی حالات میں مزاکرات کے کار گر ہونے کے امکان کم ہیں۔ گوادر پورٹ اور ایئرپورٹ بظاہر حربی مقاصد کے لئے استعمال ہونے کا خدشہ ہے۔ سی پیک کے منصوبوں سے بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ملا ہے۔ آئین پر عمل کرنے سے ریاست کی سمت درست ہوسکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سابقہ وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے آر سی ڈی کونسل کے زیر اھتمام گوادر کتاب میلہ میں منعقدہ بلوچستان کی موجودہ صورت حال کے موضوع پر منعقد ہونے والے سیشن میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس سیشن کی میزبانی ملک کے معروف صحافی و مصنف مظہر عباس کررہے تھے۔ میزبان کی طرف سے پوچھے گئے تیز و تند سوالات کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے بارے میں مقتدرہ کی پالیسی عوام دوست نہیں بل کہ بلوچستان کے لئے سیکورٹی نقطہ نظر سے پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں چار پانچ اضلاع کے سوا اکثریتی اضلاع میں مقتدرہ کے منظور نظر اسمبلی تک پہنچتے ہیں اور اکثریتی اضلاع میں جاگیر داری اور قبائلیت ہے جہاں سماجی ارتکاء کا تصور محال ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جو اسمبلی چل رہی ہے وہ منیج ہیں اپنی سیاسی زندگی میں ایسی منیج حکومت نہیں دیکھی ہے جو آکشن کے ذریعے معرض وجود میں لائی گئی ہے، جن اسمبلی ممبران نے آکشن کے ذریعے اسمبلی تک رسائی حاصل کی ہے وہ ٹریڈ کا خواہاں ہیں یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں گورننس کے مسائل نے جنم لئے ہیں جس کے نتیجے میں سماجی اور اقتصادی تبدیلی متاثر ہورہی ہے۔ بلوچستان میں بے تحاشا بدعنوانی ہے جس کی انٹرنیشنل ٹرانپیسی کے اداروں نے بھی نشاندہی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان ایک فیڈریشن یونٹ ہے فیڈریشن میں تمام اکائیوں کے اختیارات متعین کئے گئے ہیں لیکن بدقسمتی سے فیڈریشن کے دیگر اکائیوں کو اختیارات کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے اور طاقت کا منبع مقتدرہ نے خود سنھبالی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بلوچ اکابرین نے جمہوری جدوجہد جہد کی راہ میں طویل قید کاٹی ہیں اور مصائب سہے ہیں ہم بھی جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہماری وہ قوت نہیں کہ ہم اب تک درپیش چیلنجز کا مقابلہ نہیں کرپائے ہیں لیکن ہم مایوس نہیں ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین شکل اختیار کرچکا ہے لیکن اعتماد سازی کی فضاء کو ہموار کرنے اقدامات بروئے کار نہیں لائے جارہے بلوچستان کے معروضی حالات میں مذاکرات کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے اب چیزیں بہت آگے نکل چکی ہیں ایک وقت تھا جب میں وزیراعلٰی تھا تو ہم نے کوشش کی کہ مزاکرات ہوں لیکن اس عمل کو بدقسمتی سے آگے جانے نہیں دیا گیا۔ انہوں نے سی پیک منصوبوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان یا گوادر کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ملا ہے ایک بہت بڑا ایئرپورٹ بنایا گیا ہے جب پورٹ کا افتتاح کیا گیا تھا تو اس میں مقامی لوگ کم تھے، گوادر ایئرپورٹ کو بظاہر آگے حربی مقاصد کے لئے استعمال میں لایا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں حالات کی بہتری کے لئے اعتماد سازی کی فضاء ہموار کرنے کی ضرورت ہے جب تک بلوچستان بارے پالیسی تبدیل نہیں ہوگی بلوچستان اسی طرح سلگتا رہے گا ہر ادارے کو آئینی کے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنا ہوگا جب آئین پر عمل ہوگا تب تمام چیزیں ٹھیک ہونگی لیکن المیہ یہ ہے مقتدرہ آئین کو بھی نہیں مانتا ایسے ملک نہیں چلے گا۔
انہوں نے کہاکہ کتاب اور اظہار رائے پر پاپندی کسی بھی مہذب ریاست کا ائینہ دار نہیں کتابوں پر پابندی وہاں لگائی جاتی ہے جہاں ریاستیں اور تہذیب زوال پزیر ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اہلیان بلوچستان کو ووٹ کا حق بھی حاصل نہیں یہاں پر مرضی کے نتائج تیار کرکے ڈمی نمائندوں کو پارلیمنٹ میں بھیجا جاتا ہے جو صرف حکم بجاوری کا کام کرتے ہیں۔ مجھے مری معاہدہ کا ایک ہفتے بعد علم ہوا۔ سیشن میں حق دو تحریک کے سربراہ۔ جماعت اسلامی کے صوبائی امیر و ایم پی اے گ?وادر مولانا ھدایت الرحمن بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حق دو تحریک کے کاز اور جدوجہد میں کوئی ٹہراو نہیں آیا ہے ہماری تحریک کی بدولت جو خوف کا ماحول تھا وہ ختم ہوگیا ہے اب جب بھی کوئی نوجوان لاپتہ ہوتا ہے یا زیادتی کی جاتی ہے لوگ شاہرائیں بند کرکے احتجاج کرتے ہیں۔ اگر یہ تحریک نہیں ہوتی یا تو میں خود کشی کرتا یا پہاڑوں پر چلا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں صوبائی وزراء اور حکومتی نمائندگان پوائنٹ اسکورنگ کے لئے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے ہوئے ارکان کو ٹوکتے ہیں تاکہ ان کے نمبر بڑھیں لیکن میں اسمبلی میں خاموش میں نہیں بیٹھا ہوں لاپتہ افراد سمیت تمام مسائل پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرتا ہوں بلوچستان میں جو ظلم و زیادتی روا رکھی جاتی ہے میں آواز بلند کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میرے حلقہ میں ایک استانی کے تبادلے کے لئے مداخلت کی جاتی ہے جس سے یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کے معاملات کون چلا رہے ہیں مقتدرہ کی پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان میں حالات دگرگوں ہے، مقتدرہ بلوچستان کے مسئلہ کو حل کرنا نہیں چاہتا وہ اپنی پالیسی کے تحت بلوچستان کو چلانا چاہتا ہے جو ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کبھی بھی اقتدار میں نہیں رہا نہ جماعت اسلامی کو دوسروں کی طرح اقتدار میں لایا گیا ہے لیکن پھر جماعت اسلامی کو پرواسٹبلشمنٹ کہا جاتا ہے جو ناقابل فہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ساتھ بنگالیوں کی طرح سلوک روا رکھا جارہا ہے یہاں کے حکمرانوں کو بلوچستان کے وسائل اور ساحل بہت اچھے لگتے ہیں لیکن لوگ اچھے نہیں لگتے، ریکوڈک ان کو پیاری لیکن یہاں کے لوگوں کے ساتھ تیسرے درجے کی شہری کا سلوک رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول جماعت اسلامی سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں نواب اکبر خان بگٹی پر بھی برے الزام لگائے گئے تھے لیکن غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے، ہم پارلیمانی اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں جو نوجوان آج مزاحمتی سیاست کررہے ہیں وہ بھی ہمارے شاگرد ہیں۔ ہم بھی سیاسی و جمہوری مزاحمت کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کا بڑا چرچا ہے حکمران کریڈٹ لیتے تکتے نہیں کہ پم نے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرکے پورٹ، ایکسپریس وے اور نیا بین الاقوامی ہوائی اڈہ بنایا ہے لیکن پورٹ پر بحیثیت عوامی نمائندہ مجھے بھی جانے کی اجازت نہیں ایکسپریس وے پر ہم سفر نہیں کرسکتے اور نہ ہی ایئرپورٹ جاسکتے ہیں ہاں سی پیک کے بعد چیک پوسٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ سی پیک سے بلوچستان کو ایک پائی کا بھی فائدہ نہیں ملا ہے سی پیک منصوبہ کے تحت اورینج لائن ٹرین لاہور میں بنائی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک یہاں کے اصل حکمران چاہے ان کا تعلق اسلام آباد سے ہو یا پنڈی سے جب تک وہ اپنی پالیسی پر نظرثانی نہیں کرتے بلوچستان میں تبدیلی نہیں آسکتی، بلوچستان کے بارے میں حکمرانوں کو اپنی مائنڈسٹ بدلنی ہوگی تب جاکر چیزیں معمول پر آسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کی جہاں بھی لوگوں نے مسلح جدوجہد اختیار کی ہے وہ جبر اور ناانصافیوں کی وجہ سے کی ہے بلوچستان میں مسلح جدوجہد جبر اور انصافیوں کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے بلوچ نوجوان بندوق لے کر پہاڑوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔