|

وقتِ اشاعت :   2 days پہلے

بلوچستان میں گورننس ہمیشہ مخلوط حکومتوں کیلئے بڑا چیلنج رہا ہے جس میں حکومت کے اندر موجود اختلافات بڑی وجہ بنی ہیں۔
کسی بھی وزیراعلیٰ نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔ حکمراں جماعت اور اتحادیوں کے درمیان اختیارات، طاقت، فنڈز، من پسند منصوبے، تبادلے و تقرریاں تنازعہ کی بڑی وجوہات ہیں جس کی بیسیوئوں مثالیں موجود ہیں اپنے ہی وزیراعلیٰ کے خلاف حکمران جماعت کے اندر اور اتحادیوں نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ حکومت کا تسلسل جاری رہنے سے گورننس اور منصوبوں کی تکمیل صوبے کے وسیع تر مفاد میں ہے۔
جب بھی بلوچستان میںکوئی نئی مخلوط حکومت بنتی ہے وزیراعلیٰ کا انتخاب عمل میں آتا ہے تو صرف چند ماہ گزرنے کے بعد وزیراعلیٰ کی رخصتی کی خبریں گردش کرنے لگتی ہیں ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ایسی خبریں حکومتی حلقوں کے اندر سے ہی میڈیا تک پہنچائی جاتی ہیں اس میں مفادات کا ٹکراؤ سب پر غالب آتا ہے۔
تجزیاتی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دباؤ بڑھانے کیلئے یہ فارمولہ استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ان کی شنوائی ہونے کے ساتھ ان کی خواہشات کی تکمیل کو یقینی بنایا جائے حالانکہ حکومتی اراکین کے پاس اپنا فورم اور دیگر ذرائع موجود ہیں جن سے وہ اپنے جائز مطالبات کو منوا سکتے ہیں بجائے اندرونی معاملات کو کشیدگی کی طرف لے جانے کیلئے میڈیا کا سہارا لیا جائے مگر دباؤ بڑھانے والے جانتے ہیں کہ میڈیا تک خبریں پہنچنے کے بعد یہ بڑی بحث کا حصہ بن جاتی ہیں پھر تسلسل کے ساتھ روزانہ خبریں بنتیں اور بنائی جاتی ہیں۔
اس تمام عمل کے دوران بلوچستان کے اہم ترین مسائل پس پشت چلے جاتے ہیں جن پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے
مگر اس تصادم کو بھی بلوچستان کی ترقی و خوشحالی سے نتھی کیا جاتا ہے بلوچستان کے جتنے وزرائے اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں کامیاب ہوئیں نئی حکومت بنائی گئی کیا بلوچستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں، آج بھی وہ مسائل اپنی جگہ موجود ہیں ،اگر اس پورے عمل میں کوئی بینفیشری رہا ہے تو وہ وہی حلقے ہیں جو ہر حکومت کا حصہ بنتے آرہے ہیں جبکہ یہ بھی تاریخ رہی ہے کہ وزرائے اعلیٰ خود بھی مکافات عمل کا شکار رہے ہیں جنہوں نے دوسرے وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا پھر اس کے اپنے ہی قریبی ساتھی اپنے مفادات کیلئے اس کاساتھ چھوڑ گئے۔ بہرحال وزیراعلیٰ بلوچستان صوبے کے ایگزیکٹیو ہیں انہیں اپنے اتحادیوں سمیت اپوزیشن ارکان کے حلقوں کو ترجیح دینی چاہئے جبکہ ارکان اسمبلی کے جائز مطالبات پورے کرنے چاہئیں البتہ کسی غلط عمل اور اقرباء پوری، من پسند خواہشات کو پورا نہیں کرنا چاہئے ۔
گزشتہ چند روز سے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور ان کی اپنی جماعت کے وزیر میر حسن علی زہری کے درمیان شدید اختلافات کی خبریں رپورٹ ہورہی ہیں، ان اختلافات پر دونوں فریقین کی جانب سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا کہ کن مسائل پر اختلافات ہیں سطحی طور پر یہی رپورٹ ہورہا ہے کہ تبادلے تقرریاں،اسامیوں اور منصوبوں پر دونوں آمنے سامنے ہیں۔ اب اصل حقائق کیا ہیں یہ حکومتی حلقے ہی جانتے ہیں مگر کبھی بھی وہ بات سامنے نہیں لائی جاتی جو جھگڑے کی بنیادی وجہ ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان پیپلز پارٹی خواتین ونگ کی صدر فریال تالپور سے کراچی میں پیپلز پارٹی بلوچستان حکومت کے ارکان کی ملاقات ہوئی تاکہ اختلافات کو ختم کیا جاسکے ،اب اطلاعات آرہی ہیں کہ صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے اسلام آباد میں اہم ملاقات فریقین کی ہوگی تاکہ مسئلے کو حل کی طرف لے جایا جاسکے۔ بہرحال حکومت کے اندر اختلافات ہوتے ہیں ان کا حل بھی موجود ہے مگر مسئلہ ذاتی سے بڑھ کر اجتماعی نوعیت کا ہونا چاہئے، بلوچستان کو ذاتی مفادات کے لیے سیاسی عدم استحکام کی طرف دھکیلنا اور حکومتی تسلسل میں رکاوٹ ڈالناموجودہ حالات میں بڑی زیادتی ہے۔ حکومت کی ترجیح بلوچستان کے مسائل حل کرنا اور صوبے میں گورننس سمیت خوشحالی ہونی چاہئے ،سیاسی کشیدگی صوبے کو مزید پسماندگی اور محرومی کی طرف دھکیلے گا۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *