کوئٹہ:امیر جمعیت علماء اسلام بلوچستان سینیٹر مولانا عبدالواسع، جنرل سیکریٹری مولانا آغا محمود شاہ اور دیگر ممبران صوبائی مجلس عاملہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام روزِ اول سے اسلامی اقدار، مدارس کے تحفظ، جمہوریت کی بحالی اور عوامی حقوق کے لئے جدوجہد کرتی رہی ہے۔
یہ جماعت صرف ایک سیاسی تحریک نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ، مدارس دینیہ کی بقا اور شریعت کے عملی نفاذ کے لیے میدانِ عمل میں ہے۔ مدارس ہمیشہ سے اسلامی تعلیمات، نظریاتی استحکام اور دینی اقدار کے تحفظ کا مرکز رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے مختلف ادوار میں انہیں نشانہ بنایا گیا،
ان کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی اور انہیں سازشوں کے ذریعے بدنام کرنے کی مہم چلائی گئی۔جمعیت علماء اسلام نے نہ صرف مدارس دینیہ کے تحفظ کے لئے آواز بلند کی بلکہ ملک میں اسلامی تشخص، عقیدہ ختم نبوت اور ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے بھی ہر محاذ پر بھرپور مزاحمت کی۔
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں جماعت نے ہر اس قوت کے خلاف سینہ سپر ہونے کا فیصلہ کیا جو دین ِ اسلام کی سربلندی کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتی ہے۔ ملک میں شریعت کے عملی نفاذ، اسلامی اقدار کے فروغ اور مدارس کے حقوق کے لیے جو قربانیاں دی گئی ہیں، وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام نے ہر اس قانون اور سازش کی مزاحمت کی جو دین کے خلاف ہو، اور آئندہ بھی کسی قسم کی سودے بازی کے بغیر اسلام کی بقا کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔امیر جمعیت علماء اسلام بلوچستان سینیٹر مولانا عبدالواسع اور جنرل سیکریٹری مولانا آغا محمود شاہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ملک میں جمہوریت ماضی میں بار بار شدید خطرات سے دوچار رہی۔
انتخابات کو دھاندلی اور بے ضابطگیوں کے ذریعے متنازع بنایا گیا، عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکے ڈالے گئے، اور ریاستی اداروں کو سیاسی انجینئرنگ کے لئے استعمال کیا گیا۔ جمہوری حکومتوں کو غیر مستحکم کیا گیا، آزاد عدلیہ پر دباؤ ڈالا گیا، اور عوامی رائے کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی۔ یہی وہ عوامل تھے جن کی وجہ سے ملک میں حقیقی جمہوری نظام پنپنے میں مشکلات کا سامنا رہا، اور عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ان تمام چیلنجز کے باوجود جمعیت علماء اسلام نے ہمیشہ جمہوری اقدار کے تحفظ، آئین کی سربلندی اور عوامی حقِ حکمرانی کے لئے عملی جدوجہد کی۔
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن نے ہر دور میں آمریت، جبر اور انتخابی دھاندلی کے خلاف آواز بلند کی۔ انہوں نے عوامی مینڈیٹ کے احترام اور آئینی اداروں کی آزادی کے لیے طویل جدوجہد کی، اور کسی بھی دباؤ یا مفاد پرستی کا شکار ہوئے بغیر جمہوریت کے استحکام کے لیے اپنی کاوشیں جاری رکھیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ جمہوریت صرف انتخابات کے انعقاد کا نام نہیں، بلکہ یہ عوامی رائے کے احترام، شفاف حکمرانی، آزاد عدلیہ اور بنیادی حقوق کی فراہمی سے مشروط ہوتی ہے۔سینیٹر مولانا عبدالواسع اور جنرل سیکریٹری آغا محمود شاہ نے کارکنان کو ہدایت دی ہے کہ وہ جماعت کی تنظیمی مضبوطی کے لیے اپنی مخلصانہ اور مسلسل کاوشیں جاری رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کو جس طرح مفلوج کیا گیا، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ عوام کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کے بجائے، انہیں مختلف سازشوں کے ذریعے تبدیل کیا گیا۔
ریاستی طاقت کا استعمال کر کے نظریاتی سیاست کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی، مگر جمعیت علمائے اسلام نے ان تمام چیلنجز کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا۔ترجمان نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام ہمیشہ سے حق و صداقت کی علمبردار رہی ہے۔ اس کے نظریاتی کارکنوں نے ہر دور میں دینِ اسلام، جمہوریت اور پاکستان کے استحکام کیلئے قربانیاں دیں۔ جماعت نے ہمیشہ جمہوری اقدار کے تحفظ کو اپنا مشن بنایا، اور آئندہ بھی عوام کے حقوق کے لیے ہر محاذ پر اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔سیاسی میدان میں جمعیت علماء اسلام ہمیشہ ایک ناقابل تسخیر قوت رہی ہے۔ عوام کی اکثریت جماعت کے ساتھ کھڑی رہی، مگر جماعت کو روکنے کے لئے ہر مخالف قوت متحرک رہی۔
ایسے وقت میں ضروری تھا کہ کارکنان اپنی صفوں میں اتفاق اور یکجہتی کو یقینی بناتے اور جماعت کی مضبوطی کے لیے دن رات جدوجہد کرتے۔ترجمان نے کہا کہ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کسی بھی وقت قوم کو میدانِ عمل میں نکلنے کے لئے پکار سکتے ہیں۔ کارکنان کو ہمہ وقت تیار رہنا ہوگا، تاکہ جب بھی قیادت کی طرف سے کوئی ہدایت ملے، پوری جماعت منظم، مستعد اور متحد ہو کر میدان میں اترے۔جمعیت علماء اسلام کی جدوجہد کسی وقتی مفاد، اقتدار کی ہوس یا ذاتی مفادات کے لئے نہیں بلکہ اسلامی نظام کے نفاذ، شریعت کے غلبے، جمہوریت کی بحالی اور عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہے۔ کارکنان کو چاہیے کہ وہ پوری تندہی اور اخلاص کے ساتھ جماعت کے استحکام کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں تاکہ حق و صداقت کا یہ قافلہ مزید مضبوطی اور کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتا رہے۔
Leave a Reply