|

وقتِ اشاعت :   1 day پہلے

ماہ صیام کی آمد کے ساتھ ہی ملک بھر میں سبزیوں، پھلوں سمیت دیگر کھانے پینے کی اشیا کی نرخوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
ماہ مقدس نیکیاں کمانے کے لیے آتا ہے لیکن پاکستان میں اسے ناجائز کمائی کا مہینہ بنادیا جاتا ہے۔
یکم رمضان المبارک سے قبل مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں، کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں 10 سے 50 فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔
سبزی، پھلوں، مصالحہ جات سمیت رمضان کی سوغات میں جو چیزیں شہری افطار و سحری کیلئے خریدتے ہیں وہ سب مہنگے داموں مارکیٹوں میں فروخت کی جارہی ہیں ۔
گرانفروش اور ذخیرہ اندوز عوام کا خون چوس رہے ہیں جو پہلے سے مہنگائی سے پریشان ہیں۔
ملک بھر کی چھوٹی اوربڑی بازاروں میں مہنگائی کا جن بے قابو نظر آتا ہے۔انتظامیہ ہر سال کی طرح اس سال بھی محض دعوے کررہی ہے تاہم یہ سب صرف بیانات تک محدود ہے۔
پرائس کنٹرول کمیٹی اور انتظامیہ مکمل طور پر مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام ہیں ۔ منافع خور ہر سال ماہ صیام کے دوران ہر چیز کی قیمت دگنی وصول کرتے ہیں۔ دوسری جانب حکومتی سطح پر وزیراعظم شہباز شریف نے 20 ارب روپے کے رمضان ریلیف پیکج 2025 کا اجرا کردیا ہے۔
رمضان ریلیف پیکج کے اجرا کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ پیکج سے 40 لاکھ خاندان اور 2 کروڑ افراد مستفید ہوں گے ، 40 لاکھ مستحق خاندانوں کو ڈیجیٹل والٹ کے ذریعے 5 ہزار روپے دیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ رمضان کے مقابلے میں اس بار مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی ہے اور گزشتہ سال کے 7 ارب کے رمضان پیکج کے مقابلے میں اس بار 3 گنابڑھایا ، اس بار رمضان پیکج کو انتہائی آسان بنایا، اب لمبی قطاروں میں نہیں کھڑا ہونا پڑے گا۔اس موقع پر وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا کہ رمضان پیکج کو 20 دنوں کے اندر حتمی شکل دی گئی ہے ، اسٹیٹ بینک ، نادرا، بی آئی ایس پی اور دیگر متعلقہ اداروں نے ناممکن کو ممکن بنایا ، پہلی بار 30لاکھ ڈیجیٹل والٹس بنائے گئے ہیں،ڈیجیٹل والٹ کے ذریعے رقم براہ راست مستحقین تک پہنچے گی۔
بہرحال رمضان پیکج ہر سال ماہ صیام میں حکومت کی جانب سے لائی جاتی ہے مگر اس سے تمام شہری مستفید نہیں ہوتے لہذا مہنگائی پر قابو پانے کیلئے موثر اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ شہری سحر و افطار میں اپنے دسترخوان کو اپنی خواہشات کے مطابق سجائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *