دانشور لوگوں (جو دھرتی پر دُور بادلوں کے پار تک نظر رکھتے ہیں ) کا خیال یہی ہے کہ اِس ملک کے عوام کی مقدر میں آج سے نہیں بلکہ ازل سے ترقی اور پیش رفت نہیں ہے یہ بھی کہ جس ڈگر پر ملک کے حکمران رواں دواں ہیں اُن پر چلتے ہوئے ابد تک بہتری اور سُدھار کو خواب و خیال سمجھ کر بھول جانا چاہیئے موجودہ دور میں کئی بیباک دانشور تو ملک کی قیام کو عوام کی باگ میں بگڑی کیساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں لہٰزا اس کیفیت میں تبدیلی لائے بغیر عوام کی حالتِ زار سدھر جائے یا جمہوریت کی جڑیں گہرائی تک سرائیت کر کے مظلوم اقوام پر جبر و استبداد اور نوآبادیاتی نظام کی باقیات کو جمھنجھوڑ یا ہلا کر رکھتے ہوئے قانون و انصاف کا بول بالا کر دیں یا ملک کو ترقی و پیش رفت کی جانب گامزن کر دیں اِس قسم کے مثبت اقدامات پر توجہ دے کر عوام کی مقدر کو بدل دینا مقتدرہ کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے ان اقدامات سے کوسوں دور ملک کی بنیاد پرست اور رجعت پسند مقتدرہ دائروں کی مسافتِ مسلسل میں چکر کاٹنے کی عادی ہے یہ بھی کہ اس ملک میں جدید دور کی تقاضوں کیساتھ ہم آہنگ جمہوری پارٹیاں تو سرے سے ناپید ہیں ہاں البتہ مقتدرہ کی خدمات پر آمادہ گشتی پارٹیوں اور سیاستدانوں کی ملک میں بھرمار ہے جو سانس لینے پر بھی مقتدرہ کی محتاج ہیں اور کیوں نہ ہوں ملک کی نام نہاد جمہوری پارٹیاں جب مقتدرہ کی پیدوار ہیں تو خالقوں کی رضا کے بغیر مخلوق کے لیئے زیست کی سفر کو جاری اور قائم رکھنا کس طرح ممکن ہے پاکستان کی پارلیمانی پارٹیاں دراصل ایک پروجیکٹ کے ناکامی کی شکل میں یا پروجیکٹ کے سرپرستوں کی مقتدرہ کے خلاف سرمستی اور بغاوت کی صورت میں متبادل کے طور پر ایک اور پروجیکٹ پر عمل کی پیدوار ہیں لہٰزا اس قسم کی ذہنیت اور وقت کے ساتھ تجرباتِ پیہم کے سبب ملک ترقی کی بجائے مشکلات اور مسائل سے دوچار ہے اس ملک کی پارلیمنٹ میں جتنی بڑی اور چھوٹی پارٹیاں موجود ہیں ان میں سے ایک پارٹی بھی ملک اور جمہوریت کیساتھ یا ملکی مسائل پر سنجیدہ نہیں ہے یہاں پر کہنے دیجیئے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مسائل کا ادراک تو تمام پارٹیوں اور سیاستدانوں کو ہے مگر مشکل یہ ہے کہ ان سب کے سامنے رجعت پسندانہ سوچ ، ذاتی مفادات اور فروعی اغراض حائل ہیں چھوٹی اور کمتر حصہ داروں کے ساتھ ساتھ ملک کی تین بڑی پارٹیوں میں دوڑ لگی ہوئی ہے اور مسابقت کی کیفیت جاری ہے کہ ان میں سے ہر کوئی خالص اور بہتر شکل میں مقتدرہ کی خدمت کر کے اور انہی کی رضا اور خوشی سے اقتدار تک رسائی حاصل کر لے بھٹوز کی پارٹی پنجاب میں اگرچہ کمزور ہے مگر وہ سندھ ، بلوچستان اور کے پی کے ، جو تحفوں کے طور پر مل سکتے ہیں ، کے سہارے مرکزی سرکار تک رسائی کے لیئے بےچین ہے اور قصور وار بھی نہیں ہے کہ اس ملک کی بڑی پارٹیوں کو دیکھا جائے تو ان میں سے ایک بھی عوام کے اندر مقبول نہیں ہے کہ عملاّ عوامی تائید و حمایت اور ووٹوں کے ذریعے جمہوری اور قانونی طرز پر کامیابی حاصل کر کے اقتدار تک پہنچ سکے عوامی حمایت اور ووٹ کے برخلاف ملک کی تمام پارٹیاں مقتدرہ کی طرف دیکھتی ہیں کہ وہ ان کو کامیابی دلا کر اقتدار تک پہنچا دیں اس مقصد کے لیئے پارٹیوں کے قائدین نہ صرف استواری کی شرط پر وفاداری اور جی حضوری پر آمادہ رہتی ہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی کروڑوں روپے بطورے مٹھائی دینے پر دریغ بھی نہیں کرتے پھر مقتدرہ کی طبعِ شاہانہ ہے کہ ان پارٹیوں میں سے اگر کسی نے بھولے سے اُن کے ساتھ گستاخی یا سرمستی کی کوشش کی تو اُس پارٹی کو نشانِ عبرت بنا دیں گے 2018ء کے الیکشن میں نواز لیگ نے کامیابی حاصل کی تھی لیکن سرمستی اور باغیانہ طبعی کی سزا کے طور پر مقتدرہ نے اُن سے اقتدار چھین کر پی ٹی آئی کے حوالے کر دی تھی اس سے بعد 2024 ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی تھی لیکن مزکورہ بالا وجوہات کی بنیاد پر مقتدرہ نے اقتدار شہباز لیگ کو دیدی یہاں پر ماضی کی سبق کو دماغ کے روشن دانوں میں اُتار کر یاد رکھنا چاہیئے کہ 1954ء سے پاکستان اسی نہج اور ڈگر پر رواں دواں ہے جو عوام کے لیئے حرفِ تحفظ کی شکل حاصل کر چکی ہے جن کو بدلنا موجودہ دور کے پارٹیوں کی دسترس سے باہر ہے یہاں پر یہ بھی سچ ہے کہ موجودہ دور کی پارٹیاں اسی پر خوش اور راضی ہیں ملک میں اس وقت تک پی ٹی آئی مقبول ہے مگر شہباز شریف کی قیادت میں شہباز لیگ حکومت پر قابض ہے اور اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے پی ٹی آئی مقتدرہ کے خلاف جس جارحانہ انداز سے سیاست کر رہی ہے ان کی طرز عمل کو ایمانداری یا عوام اور ملک کے ساتھ خلوص سے زیادہ بلیک میلانہ کہا جا سکتا ہے اس سے آگے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ پی ٹی آئی واقعی ہی اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹی ہے اس کے برعکس پی ٹی آئی بضد ہے کہ نواز لیگ اور پی پی کے قصے کو دائمی طور پر صاف کر کے ان کی کمر کو کس کر گود لیا جائے ویسے اگر بغور دیکھا جائے تو نواز لیگ اور پی پی عوامی حمایت کھو چکی ہیں اور مقتدرہ کے سہارے حکومت پر براجمان ہیں جبکہ پی ٹی آئی سے مقتدرہ کی لڑائی ہے اس دوران کوشش کی گئی ہے کہ پی ٹی آئی کو توڑ دیا جائے مگر یہ کام اس لیئے آسان نہیں ہے کہ موجودہ دور کی پارٹیاں شخصی میراث ہیں یہ بھی کہ پی ٹی آئی چونکہ اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ مخالف رائے رکھتی ہے بلکہ مقتدرہ کی غرضدارانہ کردار کو سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے لا رہی ہے اس لیئے پی ٹی آئی کو متوسط طبقے کی حمایت حاصل ہے پی ٹی آئی کی تقسیم اور متوسط طبقے کی حمایت اور ہمدردیوں سے ناکامی کی صورت میں کوشش کی جارہی ہے کہ شاہد خاقان عباسی کی پارٹی کو متبادل کے طور پر اُبھار کر سامنے لایا جائے جن کو گزشتہ دور حکومت میں مقتدرہ آزما چکی ہے جو قابلِ بھروسہ ہے اور اس وقت بھی انکی حکمت عملی اور اہداف چونکہ مقتدرہ سمیت ہنجاب کے حق میں ہیں لہٰزا ممکن ہے کہ شاہد خاقان عباسی کی پارٹی کو عمران خان اور پی ٹی آئی کی طرز پر پنجہ دکھا کر حمایت دلا دی جائے اور ملک کی روایات کے مطابق شاہد خاقان کی پارٹی پلک جھپکتے ہی ابھر کر سامنے آجائے لیکن اس سے ملک کے عوام ، محکوم اقوام اور جمہوریت کے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ شکل اختیار کر لیں گے اور وقت بدستور دائروں کی شکل میں چلتا جائیگا آج سے دہائیاں قبل ایک دانشور ، شاعر اور ادیب نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا کہ پاکستان اسی کیفیت میں قائم رہ کر چلتا یا رینگتا رہے گا جس میں عوام زندہ در گور رہیں گے جبکہ مقتدرہ اور ان کے حواری عیش و نوش کے ساتھ زندگی گزار دیں گے
شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ دنوں کی ایک نمائشی اجلاس کو قومی قیادت اور قومی ڈائیلاگ کہا ہے لیکن یہاں پر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اِس ملک میں ، حکومت میں شامل یا حکومت سے باہر ، کون ہے جو خود کو قومی قائد کہے جنکو کہ عوام کی حمایت حاصل رہے اور عوام کے لیئے فکر مند ہو یہ بھی کہ عوام چونکہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان پارٹیوں کے قائدین مقتدرہ کے بُوٹ چاٹ ہیں اسی کارن عوام کی حمایت ان پارٹیوں اور ان کی قائدین کو بالکل بھی حاصل نہیں ہے ہاں البتہ ڈاکٹر عائشقہ صدیقہ کی یہ تجویز اور دلیل بلاشبہ وزن دار اور قابلِ عمل ہے کہ پاکستان میں بس دو ہی قائدین مہرنگ بلوچ اور منظور پشتین موجود ہیں جو عوامی حمایت اور قائدانہ صلاحیت رکھتی ہیں جو ملک کو موجودہ دلدل سے نکال کر سُدھار سکتی ہیں ان دونوں کے علاوہ اس ملک کی تمام قائدین اور پارٹیوں کو سمندر کی لہروں ، گردابوں اور طغیانیوں کے حوالے کر دینا چاہیئے تاکہ ملک کو ایک ہی جھٹکے میں گندگیوں سے پاک کیا جا سکے پر ملک کی باگ ڈور چونکہ مقتدرہ کے ہاتھوں میں ہے لہٰزا اس سنجیدہ دلیل اور تجویز پر عمل ان عناصر کے لیئے ہر گز قابلِ قبول نہیں ہے جو ملک کے مسائل کی حل پر سنجیدہ نہیں ہیں اور اپنی مرضی کے تابع ہیں پھر یہ بھی کہ اُن کی نظر میں ان سے بہتر اور پاکدامان تو فرشتے بھی نہیں ہیں لہٰزا اس تجویز پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے ان کو نا قابلِ قبول اور حقارت کی نگاہوں سے دیکھتی ہیں
قومی قیادت ، قومی ڈائیلاگ

وقتِ اشاعت : March 15 – 2025
Leave a Reply