|

وقتِ اشاعت :   1 day پہلے

وادی کیچ کا ہر گاؤں اور قَصبہ ایک نہ ایک شخصیت کی وجہ سے مشہور ہے چاہے وہ بہادری و جْرات ہو،مہمان نوازی و سخاوت ہو،خوش الہانی و موسیقی ہو، جْرات وغیرت ہوشعرو شاعری ہو یا علم و ادب ہو ،کسی نہ کسی نسبت مشہور ہونگے کیچ کا قصبہ کلاتک سے کچھ مْسافت کے فاصلے پر ایک ایسا گاؤں واقع ہے، چو زمانہء ماضی میں دریائے کیچ کے بالکل عقب میں واقع ہونے کی وجہ سیاب میرانی ڈیم کی زَد میں آچکاہے(اب ساری آبادی زبیدہ جلال مین روڈ کے نزدیک شمالی جانب منتقل ہوچکی ہے) اسی سولبند نامی چھوٹے سے گاؤں میں شیراں دادکریم گوڑی جیسے سپوت،مْعالج وادیب ڈاکٹر موسی خان قلم دوست،ڈاکٹرمنیر احمد شورش،اطلاعات و نشریات اور ادیب وتِحقیق کے لازوال شخصیات مْحترم بشیر احمد بلوچ نے آنکھیں کْھولی ہیں، اِسی طرح اِسی خاندان کے ایک اور چَشم وچِراغ اور ثقافتی مَْہم جْو جناب عبداللہ بلْوچ بھی اسی گاؤں میں سال 1957ء کو پیدا ہْوئے
عبداللہ بلوچ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں اور میٹرک گورنمنٹ ہائی اسکول تْربَت سے 1972ء میں پاس کیا بی اے آنرز کراچی یْونیورسٹی سے 1978ء میں کیا پِھر اسی یْونیورسٹی سے ایم اے صحافت سال 1979ء میں مْکمل کی، تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اْس نے عملی زِندگی کا آغاز بہ حیثیتِ رپورٹر کوئٹہ کے اخبار سے کیااس کے بعد سال 1982 ء میں ادارہء ثقافت بلْوچستان میں ”پروگرام آفیسر“ تعینات ہوئے 1986ء میں ان کو بلْوچستان آرٹس کونسل کوئٹہ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے عْہدے پر ترقی دی گئی اس کے علاوہ سال 2010ء میں ان کو ڈائریکٹر جنرل سوشل ویلفیئر بلْوچستان بنایا گیادو سال مْکمل کرنے کے بعد دوبارہ اپنے اَصل شْعبے کی طرف رْجوع کیا،کیونکہ ثقافت سے ان کو بے حدّ مْحبت ہے اور عطاشادکے بعد اس شْعبے کی شان و شوکت ایک ہی عبداللہ بلوچ ہے اور ان کے فارغ ہونے کے بعد یہ شْعبہ بھی فارغ ہوگیا، مْحترم عبداللہ بلوچ کو کئی اداروں کے فیلو شِپ اور ممبر شِپ اِعزاز حاصل ہے وہ ”نیشنل کرافٹس کونسل آف پاکستان“ کے نائب صدر ”، ”مکْران ڈیویلپمنٹ سوسائٹی“کے صدر”پاک ایران فِرینڈ شِپ سوسائٹی“ کے ایگزیکٹیو ممِبر،”بلوچی اکیڈمی کوءِٹہ“ کے مْستقل مِمبر، دو مرتبہ اِیگزیکٹیو باڈی کے ممِبر،”پاک جاپان فرینڈ شِپ سوسائٹی“ کے ایگزیکٹیو مِمبر،”نیشنل کالج آف آرٹس“(این سی اے) لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے جنرل باڈی کے عِلاوہ ”پاکستان نیشنل آرٹس کونسل“ اسلام آباد اور”لوک وِرثہ“ اسلام آباد کے مْشاورتی کمیٹی میں شامل رہے،عبداللہ بلْوچ کو اپنی شْعبے کی طرف سے بْہت سے بیرونی ممالک جانے کا مْوقع مِلاوہ جہاں بھی گئے، اپنی بلْوچی ثقافت کی صَحیح نمائندگی کی ایک ثقافتی سفیرکی حیثیت سے بلْوچی ثقافت کو دْنیا کے ایک خوبصورت اور بہتریں انداز میں پیش کی اس نے 1993ء میں یو ایس آئی ایس کی طرف سے امریکہ کا ثقافتی دورہ کیا1993ء میں برطانیہ اور چین کا،1996ء کو ایران گئے۔

1997ء کو دوبارہ چین گئے1999 ء کو اِٹلی اور آسٹریا گئے اور 2000ء کو ادبی اور ثقافتی وفد کے ہمراہ تیسری دفعہ چین کا دورہ کیا اور وہاں کے تمام علمی، ثقافتی اور ادبی اداروں کو نہ صرف قریب سے دیکھے، بلکہ کلچرل ایکسچیج میں بہت اہم رول ادا کیے,جس وقت عبداللہ بلوچ ادارہ ثقافت کے ڈائریکٹر تھے،تو ہر جانب ادیب،شاعر مْصّور،مْوسیقار، گلوکار، خطاط، الغرض فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کا رَش لگا رہتا تھا۔ 1986ء میں جب عبداللہ بلوچ نے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی کْرسی سَنبھالی تو اس نے معروف غزل گو مْغنّیہ عابد پروین کو ادارہ ء ثقافت میں گانے کی دعوت دے دی عابدہ پروین نے اسی ادارہء ثقافت کے اِسٹیج پر مشہور بلْوچی لوک گیت”لیلی اولیلی بیا تَرا بَراں سیلا گایا جو بے حدّ مشہور ہوا بعد میں ریڈیو پاکستان کوئٹہ نے عابدہ پروین کی اِس بلْوچی گیت کو اپنے پروگراموں میں نشر کیا،عَبداللہ بلوچ دوسری زْبانوں کے فَنکاروں کے علاوہ اپنی لوکل فنکاروں کو بھی بْہت ترجیج و اِہمیت دیتے تھے۔

مْرید بْلیدئی،اَختر چنال، نْورمحمد نورل، رحیم بخش ناز، محمدعلی بلوچ،۔رحیم بلوچ، جنگی خان۔،سبزل سامگی، عزیز بلوچ، ستار بلوچ، شفیع بلوچ،بشیر بلوچ، مراد پارکوئی، ارباب خان کھوسہ، باقی خیال، بشام خان باچکانی، پہلوان مزار ابراہیم، تاج بلیدئی، ثمینہ کنول، مائی سَبائی اور بیشمار بلوچی خوش اَلہانوں نے ادارہ ثفافت بلوچستان کے آڈیٹوریم میں اپنے فن کا جادو جگایا اور خْوب داد و تِحسین حاصل کیے اسی طرح بلوچستان کے مشہور موسیقاروں میں سلطان محمد چانئے(ربابی)، استاد کریم بخش پِیرنا(طبلہ) تاج محمد تاجل(بینجو نواز)سَچو خان(سْروزی) خیر جان فیض(طبلہ) امام دین صَلاحی(ربابی) عمر بلوچ (سْروزی)مصری خان بگٹی(چَنگ) اْستاد عبدالرحمان سوری زئی (بینجو نواز) امیر بخش بلوچ(مین ڈولین) اور کئی سازندوں نے ادارہ ثقافت کے اسی ہال میں اپنی اپنی سازوں کے تار چھیڑدیئے،عبداللہ بلْوچ کی کوششوں سے ادارہ ء ثقافت میں فن خَطاطی کی نابغہء روز گارہستی اور جہانِ فن خَطّاطی کیمایہء ناز اْستاد الاساتِذہ محترم خورشید عالم(تمغہ ء اِمتیاز) بھی اسی ادارے میں فنِ خَطّاطی کے شوقین طلبا و طالبات کو خَطّاطی کے علم سے روشناس کرتے رہے اْنہوں نے بیشمار وقت کوئٹہ میں گْزارے بلْوچستان خصوصا کوئٹہ میں جِنتے بھی پرانے خَطّاط ہیں وہ سارے کے ساریادارہ ء ثقافت، عبداللہ بلوچ اور محترم خَطّاط خورشید عالم گوہر قلم کے پیداوار ہیں بعد میں جب نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں کیلیگرافی کا شعبہ قائم ہوا تو وہ این سی اے لاہور میں استاد مقرر ہوئے اور کوئٹے کو خداحافظ کہا اور گرمیوں کی چْھٹیوں میں اکثر کوئٹہ آیا کرتے تھے، ایک دفعہ غالبا 2001ء کا سال تھاراقم الحروف یونیورسٹی کی کلاسوں سے فارغ ہوا تھا اور کسی کام کے سِلسلے میں سیدھے بازار(جناح روڈ) کارْخ کیا واجہ عبداللہ بلوچ کا دفتر ہمارا ٹھکانہ (اوتاخ) تھاجب واجہ کے دفتر میں داخل ہْوا تو سَلام کیا اور کونے میں ایک صوفے پر بیٹھ گیاواجہ کے عین پہلو میں ایک خوبصورت شخص،سِتوان ناک،سفید پوش، سَر پر سفید ٹوپی،ہلکے پلکے داڑھی،کم گْو اور بزرگ آدمی تشریف فرما تھے واجہ نے اس بڑے آدمی کا تعارف یوں کیا ”یہ محترم خورشیدِ عالم گوہرِ قلم ہیں بین الاقوامی خَطّاط ہیں اس وقت نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں خطّاطی کے اْستاد ہیں اور اس نے قرآن شریف کو مختلف خَطّوں اور وَرڑن میں لکھے ہیں۔اس سے پہلے گوہر جی ہمارے اِسی ادارے میں فنِ خَطاطی کی تعلیم دیتے رہے اْنکی بڑائی اور بْزرگی دیکھیں کہ وہ ہر سال خود ہماری طرف تشریف لاتے ہیں۔“
جب میں نے عبداللہ بلوچ سے اس کا نام سْنا تو میں نے برجستاً کہا کہ میں نے اس مْحترم کانام کئی مرتبہ سْنا ہے اگر گوہر جی صاحب اس ادارہ ثقافت میں ہوتا تو میں بھی اس کا شاگردی کا شرف اختیار کرلیتاکیونکہ میں بھی فنِ خَطّاطی کا بْہت شوقین اور دِلدادہ ہوں۔اْس نے جب میری بات سْنی تو فرمایا کہ اس میں مْشکل بات کیا ہے؟آپ لاہورآجائیں میں آپ کے رہائش کا بندوبست کرلیتا ہوں۔وہاں میرا شاگرد بن جائیں،واجہ عبداللہ بلوچ نے میرا سفارش کیا۔لیکن بعد میں میں لاہور نہ جاسکا۔ا

س خاص موقعے کو ضائع کرتے ہوئے میں آج بھی پچھتاتا ہوں، عبداللہ بلوچ نے اپنی اچھی خاصی تعلقات کی بْنیاد پر نہ صرف مْجھے بلکہ بہت سے طالب علموں کو نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے) لاہور جیسے اعلی تعلیمی و فَنّی ادارے میں داخلے اور اسکالر شِپ کی بنیاد پرسفارش کی تھی کْچھ نے اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور کْچھ نے اس موقعے کو ٹھکرا دیئے، عبداللہ بلوچ نے بحیثیتِ ڈائریکٹر بلوچستان آرٹس کونسل اپنے دور میں بے شمار ثقافتی، ادبی، موسیقی اور مْلکی سطح کے مْشاعرے کروائے، ادیبوں، شاعروں اور فنونِ لطیفہ سے مْنسلک شخصیات کے اعترافِِ فن کے حوالے سے شاموں کا اہتمام کیا کرتے تھے اور مقامی شعراء،ادباء،موسیقار اور فنکاروں کے اِعزاز میں پروگرام بھی مْنعقد کرواتیتھے ادارہ ء ثقافت کے زیرِ اہتمام بے شمار کتابوں کی تقریبِ رونمائی بھی واجہ عبداللہ بلوچ کی زیرِ نگرانی میں منعقد کروائے گئے تھے، عبداللہ بلوچ کی کاوشوں اور فنونِ لطیفہ سے بے پناہ مْحبت کی وجہ سے اسی ادارہ ء ثقافت کے آڈیٹویم میں لیکچرز، ورکشاپس اور مشاعروں کا اہتمام کروائے گئے، جن میں احمد فراز، مْحسن اِحسان،ڈاکٹرمحمدعلی صدیقی،پروفیسر سحر انصاری،اوریا مقبول جان عباسی،عطاشاد،مراد ساحر، پروین شاکر،میر عیسی قومی، افتخار عارف،فہمیدہ ریاض، محمد بیگ بیگل،عکسی مفتی،ایوب بلوچ، عبداللہ جان جمالدینی، سجاد بابر،عین سلام،اِمداد نِظامی،سید عابد رضوی،ڈاکٹر انعام الحق کوثر، مْنیر احمد بادینی،پروفیسر عابد شاہ عابد،ڈاکٹر نعمت اللہ گچکی،ڈاکٹر فاروق احمد،غوث بخش صابر، حکیم بلوچ، جی آر ملا،اکبر بارکزئی،ڈاکٹر فردوس انور قاضی،امیر المک مینگل، بشیر بیدار، مْحسن چنگیزی، سعید گوہر،پروفیسر بیرم غوری،سرور جاوید،ڈاکٹر عرفان احمد بیگ اورکئی دوسرے شعراء، ادباء اور موسیقار اورفنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے مختلف شخصیات کوتشریف لانے کی دعوت دی گئی اس کے علاوہ بلْوچستان اور مْلک کے کونے کونے سے آنے والے مْصّوروں اور خَطّاطوں کے فن پاروں کے نمائشوں کا اہتمام بھی عبداللہ بلوچ بخوبی کرلیتے تھے اور فنکاروں کی قدر کرنا بھی بہتر انداز میں جانتے تھے عبداللہ بلوچ کے فارغ ہو جانے کے بعد ادارے کیچپراسی سے لیکر بڑے آرٹسٹوں تک آج بھی اسکی شفقت اور محبت کو ترس رہے ہیں کہ واقعی ایسا ثقافت شناس اور فنکار دوست انسان بہت کم ہیں، عبداللہ بلوچ کی مْحنتوں اورکاوشوں کی بدولت ادارہء ثقافت بلْوچستان کی جانب سے چند بین الاقوامی اور یادگاری سیمینار منعقد کروئے گئے، جو آج بھی یاد کیے جاتے ہیں ادارہ ء ثقافت کی جانب پہلا دو روزہ بین الاقوامی سیمینار ریڈیو پاکستان کے روحِ رواں بشیراحمد بلْوچ کے تعاون اور ریڈیو پاکستان کے باہمی اِشتراک سے 1994ء میں بعنوانِ ”کیچ ایک باز یافت“ کے حوالے سے کیچ می ایک اہم سیمینار مْنعقد کروائی اس حوالے سے موصوف کتاب”کیچ:ماضی، حال اور مستقبل“ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں، ”میں آپ سب حاضریں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کیچ کے حوالے سے یہ ہمارا دوسرا سیمینار ہے،آپ میں سے بہت سے لوگوں کو یادنہیں ہوگا،مگر اکرم دشتی صاحب جو اس وقت یعنی 1994ء میں اِطلاعات و ثقافت کے وزیر تھے اور موجودہ وزیریر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ (اس وقت صْوبائی وزیر تعلیم تھے)کے دور میں ایک سیمینار جس کا عنوان تھا،”کیچ ایک باز یافت“ مْنعقد کیا گیا۔

جو ریڈیو پاکستان کے تعاون سے مْنعقد ہوا تھااس وقت کے ریڈیو پاکستان کے پروگرام ڈائریکٹر مْمتاز بَراڈ کاسٹر اور مْحقّق و دانشور بشیر احمد بلوچ کی کوششوں سے ریڈیو پاکستان تْربَت کے اسٹیشن ڈائریکٹر جناب سَیّد عابد رِضوی کے جَدوجْہد سے ہوا تھا۔اس لئے اِس سِلسلے میں آپ کو اس سیمینار کا پَس منظر بیان کرریا ہوں۔”کیچ ایک بازیافت“ جوکہ دو روزہ سیمینار تھا۔اس سیمینار میں سندھ سے نامور مْحقّق و ادیب ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ،پنجاب سے مْمتاز مْحقق و دانشور افضل پرویزکے علاوہ بشیر احمد بلوچ،مولانا عبدالحق بلوچ۔عبدالغفار ندیم،ڈاکٹر منیر احمد گچکی،عطاشاد،غنی پرواز،اور ابراہیم جلیس نِگورینے مقالے پیش کیے اس سیمینار میں ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے ”بلْوچ تاریخ کے آئینے میں“جناب افضل پرویز نے اپنا مقالہ”پنجابی شاعری میں کیچ کا حوالہ“، اسی طرح بشیر احمد بلوچ نے بلْوچی زْبان کے”مَلک الشْعراء مْلا فاضل رِند کی شاعری“مولانا عبدالحق بلوچ نے ”کیچ میں اسلام کی آمد“،ڈاکٹر مْنیر احمد گچکی نے ”کیچ تاریخی پس منظر کے آئینے میں“عبدالغفار ندیم نے ”کیچ ایک تاریخی گْزرگاہ“،جناب عطاشادنے ”سرزمین کیچ شعر ونغمہ کی روشنی میں“،جبکہ ڈاکٹر تاج بلْوچ نے اطالوی مِشن کے دو مْمتاز اسکالرز محترمہ ویلیریا اور ڈاکٹر رونالڈ کے مقالے جو”1990ء سے لیکر 1993 ء تک کیچ پر آرکیالوجیکل تحقیق پر مبنی رپورٹس“ تھے، پیش کیے چونکہ دونوں فرانسیسی اسکالرز خود موجود نہ تھے۔محترمہ مِہتاب راشدی صاحبہ کو”سندھی شاعری میں کیچ“ کے عنوان سے مقالہ پیس کرنی تھی، مگر وہ اپنی مصروفیات کی بناء پر کیچ نہ پْہنچ پائی تھیں۔اس کے علاوہ کْہنہ مشق صحاقی ابراہیم جلیس نگوری نے بھی اپنا مقالہ پیش کیا۔“

(کیچ:ماضی،حال اور مْستقبل،پیش لفظ،عبداللہ بلوچ صحفہ۔11،12)، مْحترم عبداللہ بلوچ اور ادارہء ثقافت بلْوچستان کا دوسرا اہم اور سنگِ میل کارنامہ یہ تھا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے وزارت اعلی کے ڈھائی سال کے دوران موقعے سے فائدہ اْٹھاکر پہلے کوئٹہ میں بلْوچی اکیڈمی کوئٹہ کے اِشتراک سیمیر گْل خان نصیرکے سو سالہ جشن پر سرینا ہوٹل کوئٹہ میں دو روزہ اِنٹر نیشنل سیمینار بمورخہ ِ 5/6 دسمبر 2014 ء کو انتہائی محنت، مْشقت اور جانفشانی سے منعقد کروائی اس دو روزہ سیمینار میں دْنیا کے چَپّے چَپّے سے بلوچ دانشوروں کو میرگل خان نصیرکے نام پر کوئٹہ میں جمع کروانا ایک انتہائی مشکل اور دل گردے کام تھا اور یہ کام ادارہ ثقافت کے روحِ رواں مْحترم عبداللہ بلْوچ اور اس کے رْفقائے کار کی کاوشوں کی بدولت سے ہوئی ہے، ادارہ ء ثقافت بلوچستان نے اِسی سِلسلے کو برقرار رکھتے ہِوئے اپنا تیسرا بین الاقوامی دو روزہ سیمینار وادی ء کیچ کیاہم مرکز تْربَت میں بتاریخِ27/ 28 مارچ 2016ء کو ”کیچ ثقافتی میلے“ کا نام دیکر جامعہ تْربَت کے باہمی شِراکت داری سے اِنتہائی شایان شان اور خوبصورت طریقے سے منعقد کروائی اس دو دوزہ سیمینار میں ”کیچ: ماضی،حال اور مْسقبل“ کے عنوان سے ملک کے کونے کونے سے اِسکالروں کو کیچ جیسے دْور اْفتادہ سرزمین میں یکجا کیے گئے۔آخری شام موسیقی کی محفل بھی سَجی گئی،”کیچ ماضی، حال اور مْستقبل“ کے موضوع پر بْہت سارے مْحقّقین نے مقالے پیش کیے جو یہ ہیں:
”کیچ اور بھمبور کے تعلقات“،گل حسن کلمتی،”شاہ لطیف کے سْر سسّی میں بلوچی“،پروفیسر ڈاکٹر رخمان گْل پالاری،”بلوچ کلچر میں موسیقی“،محمد یْوسف گچکی،”کیچ مکْران و لیاری“،محمد رمضان بلوچ،”کیچ ء ِ? نامی ئیں جنگ گوک پروش“۔ڈاکٹر غفور شاد،”کیچی دوچ گوست،ھست و باندات“،مہلب نصیر بلوچ، “Baloch Role in Persian gulf in historical،،“،perspective1862_1900حفیظ احمد جمالی،
،“Baloch Daisspra”یار جان بادینی,”Socio-economics and growth potential and challenges of district kech“,پروفیسر ڈاکٹر سَید منظور احمد، ”کیچ کے خواتین کا ادبی کردار“پروفیسر ڈاکٹر رمضان بامری “History smuggled out balochistan,s physical heritage at high riskڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری, ”kech an archeological prespective,جمیل احمد بلوچ” بلوچی ثقافت“ ڈاکٹرعبدالصبوربلوچ،”The Proto-historic of balochistan in the light of recent finding “پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید بلوچ،“Historic Perspective of kahn and kourjo”ڈاکٹر گل حسن بلوچ,“Kech: An Historic and Geo-strategic”پروفیسر ڈاکٹر جاوید حیدر,,,Kech Vally the Future hub of economic activities ”محمد صدیق بلوچ نے انہی موضوعات پر اہم مقالے پیش کیے،جنہیں بعد میں عبداللہ بلوچ کی کاوشوں سے محمد پناہ بلوچ نے ادارہ ثقافت کرکے بلوچستان کی جانب مرتب کرکے کتابی شکل دے دی، پھر اسی دور میں عبداللہ بلوچ نے بلوچستان میں ثقافتی ترقی و ترویج کیلیے صوبائی سرکار کو پروپوزل پیش کیے کہ کیچ،گوادر اور خضدار میں بڑے پیمانے پر ثقافتی مراکز کھولے جائیں تواس دور میں صوبائی ترقی کے خواہاں سرکار نیاس کو جلد از جلد منظور کروائی اور کوئٹہ کے علاوہ تینوں شہروں میں ثقافتی مراکز کے کام کا افتتاح ہونے لگے اورانہی کی تجاویز کی بدولت تینوں شہروں میں ثقافتی سرگرمیاں گاھے بگاہے ہوتے رہتے ہیں ماسوائے گوادر مرکز کے،کیونکہ وہاں اسکول کے نام پر اس سینٹرز پر ابھی بھی طاقتور لوگ قابض ہیں اس حوالے سے عبداللہ بلوچ نے اس کو واگزار کرنے کے لیے آواز اٹھایا کہ ہماری اس قومی میرات اور ثقافتی ورثے کے مرکز کوخالی کروائی جائے،لیکن زورآور لوگ نہ ثقافت کی قدر جانتے ہیں اور نہ ادب اور آثار قدیمہ کی،ہمارے یہ ثقافتی سفیراور ثقافت شناس عبداللہ بلْوچ سال 2017 ء کے آخر میں اس محمکے کے ڈائریکٹر شپ سے ریٹائر ہوگئے لیکن بلوچستان کی ثقافت، آثار قدیمہ کی تحفّظ اور بلوچی موسیقی کی ترقی اور موسیقاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کرتے ہیں بلکہ ان کی تحفظ کے لیے مْفید اور کارآمد مشورے بھی ریتے رہتے ہیں۔اللہ تعالی ایسے ہستیوں کو عمرِ دَراز بَخشے۔!!!

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *