|

وقتِ اشاعت :   2 days پہلے

 

ایران سے آنے والے 1200 ٹرک پاکستان-ایران سرحد پر پھنسے ہونے کے معاملے پر وزارت تجارت نے وفاقی کابینہ میں ایک نئی سمری پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ایران اور افغانستان سے درآمدات کے لیے ’امپورٹ فارم‘ کی شرط ختم کرنے اور موجودہ بارٹر ٹریڈ پالیسی پر نظرثانی کی تجویز دی گئی ہے۔

بزنس ریکارڈر کے مطابق یہ پیشرفت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت اور قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ریونیو کے پہلے مشترکہ اجلاس میں ہوئی، جس کا مقصد ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے بڑھتے مسائل کو حل کرنا تھا۔

کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے وزارت تجارت کو ہدایت کی کہ وہ نئی سمری میں بارٹر ٹریڈ کے تحت ایران سے درآمدات کو امپورٹ پالیسی آرڈر کے برابر حیثیت دے۔

ایف بی آر کا حیران کن انکشاف: ”ہمیں ایرانی ٹرکوں کی کوئی اطلاع نہیں“

اجلاس کے دوران ایف بی آر کے ایکٹنگ ممبر کسٹمز نے انکشاف کیا کہ پاکستانی کسٹمز کو کسی 1200 ایرانی ٹرک کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم سے کسی نے کلیئرنس کے لیے رجوع نہیں کیا، اس لیے ہمیں ایسے کسی مسئلے کا علم نہیں‘۔

وزارت تجارت کے حکام نے بتایا کہ کابینہ کے لیے سمری پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے منظوری لے چکی ہے، تاہم ایف بی آر کی جانب سے تاحال رائے موصول نہیں ہوئی۔

بعد ازاں ایف بی آر نے وضاحت دی کہ ’امپورٹ فارم‘ کی چھوٹ کا اختیار وزارت تجارت اور اسٹیٹ بینک کے پاس ہے، اور انہیں آپس میں فیصلہ کرنا چاہیے۔

نئی بارٹر پالیسی کا اعلان: 10 دن میں رپورٹ طلب

کمیٹی نے موجودہ بارٹر ٹریڈ پالیسی کو ازسر نو تیار کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا تاکہ پاکستان اور ایران دونوں کے لیے درآمد و برآمد میں کوئی نقصان نہ ہو۔ یہ پالیسی پہلے کمیٹی سے منظوری کے بعد وفاقی کابینہ کو پیش کی جائے گی۔ کمیٹی نے 10 دن میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔

اجلاس کی صدارت سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور سینیٹر انوشہ رحمان نے مشترکہ طور پر کی۔ اجلاس میں سیکریٹری تجارت اور وزیر تجارت کی غیر حاضری پر کمیٹی نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور اسے پارلیمانی نگرانی کی توہین قرار دیا۔

سینیٹر مانڈوی والا نے کسٹمز کلیکٹر کوئٹہ کے اجلاس میں شریک نہ ہونے پر استحقاق کی تحریک لانے کی بھی تنبیہ کی۔

غیر موثر پالیسیوں اور عدالتی سٹے آرڈرز پر تنقید

کمیٹی نے موجودہ بارٹر ٹریڈ پالیسی کو ’’پیچیدہ، غیر معقول اور ناکارہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پالیسیاں تجارت کو مفلوج کر رہی ہیں اور پاکستان کی معاشی صلاحیت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

سینیٹر مانڈوی والا نے کہا، ’ملک سٹے آرڈرز پر نہیں چلائے جاتے۔ کسٹمز اتھارٹی صرف عدالتی حکم کے سہارے بیٹھی ہے۔‘

سینیٹر انوشہ رحمان نے بھی خبردار کیا کہ اگر بیوروکریٹک رکاوٹیں جاری رہیں تو وزیر اعظم کا 60 ارب ڈالر تجارت کا وژن ایک خواب ہی رہے گا۔

ایرانی وفد کا انکشاف: ”1200 ٹرک سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں“

ایرانی نمائندوں نے کمیٹی کو بتایا کہ 1200 ٹرک — جو پہلے بتائی گئی تعداد 600 سے دو گنا زیادہ ہیں — پاک-ایران سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں، جس سے دونوں طرف تاجروں کو بھاری نقصان ہو رہا ہے۔

کمیٹی نے اس بحران کی جڑ کو دو متضاد پالیسیوں میں پایا: ایک بارٹر ٹریڈ پالیسی، جو صرف ایرانی نژاد اشیاء کی اجازت دیتی ہے؛ اور دوسری امپورٹ پالیسی آرڈر، جو ہر درآمد کے لیے ’آئی فارم‘ کا تقاضا کرتی ہے۔

بینکاری چینل کی غیر موجودگی: ایرانی ڈرائیوروں کے لیے ضمانت دینا ناممکن

موجودہ ضوابط کے تحت ایران سے تافتان سے این ایل سی ڈرائی پورٹ تک مال لانے والے ایرانی ٹرانسپورٹرز کو کسٹمز ڈیوٹی اور ٹیکسز کے برابر بینک گارنٹی دینی ہوتی ہے۔ مگر دونوں ممالک کے درمیان بینکاری نظام کی غیر موجودگی کے باعث یہ ممکن نہیں رہا۔

وزارت تجارت نے تسلیم کیا کہ بارڈر ٹریڈ کا موجودہ طریقہ کار نہایت پیچیدہ ہے، جس کی وجہ سے قانونی تجارت متاثر ہو رہی ہے۔

کمیٹی کا اگلا اجلاس متوقع طور پر 10 روز بعد ہوگا، جس میں نئی پالیسی اور پیش رفت پر رپورٹ پیش کی جائے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *