|

وقتِ اشاعت :   4 hours پہلے

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ گجرات کے قصائی نریندر مودی پر جنگی جنون سوار ہو چکا ہے اور وہ پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کا گراؤنڈ بنا رہا ہے۔ امریکی اخبار کے مطابق مودی نے حالیہ دنوں میں دنیا بھر کے بارہ سے زائد عالمی رہنماؤں کو ٹیلیفون کیے ہیں اور ایک سو سے زائد سفارتی مشنز کو خصوصی بریفنگز دی گئی ہیں۔ نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ مودی کی یہ غیر معمولی سفارتی سرگرمیاں کسی طور بھی امن کے لیے نہیں بلکہ پاکستان پر حملے کا جواز گھڑنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نریندر مودی نے دنیا کو پاکستان کے خلاف اکسانے کی کوششوں میں صرف مبہم الزامات کا سہارا لیا ہے اور اب تک محض ’لنکیج‘ یعنی ماضی کے مبینہ تعلقات کا حوالہ دے کر پاکستان پر الزام تراشی کی جا رہی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے واضح کیا کہ بھارت نے حملے کے ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے، نہ ہی کسی مخصوص گروپ کو سرکاری طور پر حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کا یہ طرز عمل ظاہر کرتا ہے کہ بھارت امن کی راہ اپنانے کے بجائے ایک خطرناک تصادم کی جانب بڑھ رہا ہے۔ عالمی سطح پر بڑے طاقتور ممالک موجودہ صورت حال میں یا تو خاموش ہیں یا دیگر بحرانوں میں الجھے ہوئے ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مودی اپنی جنگی مہم جوئی کے لیے میدان ہموار کر رہا ہے۔

 

نیویارک ٹائمز نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا کہ بھارت، مقبوضہ کشمیر میں حالیہ حملے کے بعد پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے راہ ہموار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اخبار نے چار سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ بھارتی وزارت خارجہ میں بریفنگز کے دوران یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ بھارت کسی بڑی عسکری کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق نئی دہلی سے شائع شدہ تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ مودی کی سفارتی ملاقاتیں زیادہ تر بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے نہیں بلکہ بھارت کی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ مودی نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں بغیر پاکستان کا نام لیے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کرنے اور سخت سزا دینے کا عندیہ بھی دیا۔

 

نیویارک ٹائمز نے صورتحال کو انتہائی کشیدہ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج نے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے، جس میں سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور حملہ آوروں کی تلاش جاری ہے۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو پانی کی فراہمی بند کرنے کی دھمکی دی ہے، جبکہ پاکستانی سفارت خانے کے بعض عملے اور پاکستانی شہریوں کو بھارت چھوڑنے کا حکم بھی جاری کر دیا گیا ہے۔

پاکستان نے اس صورتحال کے ردعمل میں دو طرفہ معاہدوں، بشمول شملہ معاہدہ، سے علیحدگی کی دھمکی دی ہے جو کشمیر میں لائن آف کنٹرول سے متعلق ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، اور مختلف شہروں میں کشمیری طلبہ کو ہراسانی کا سامنا ہے جس کے باعث بہت سے طلبہ اپنے گھروں کو واپس جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

نیویارک ٹائمز نے یہ بھی واضح کیا کہ پانچ دن گزرنے کے باوجود بھارت نے اب تک کسی تنظیم کو باضابطہ طور پر حملے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا اور نہ ہی پاکستان پر الزامات کے حق میں کوئی ثبوت پیش کیا ہے۔ بھارتی حکام نے سفارت کاروں کو بریفنگ دیتے ہوئے صرف پاکستان کی ماضی کی مبینہ دہشت گرد گروپوں کی حمایت کا حوالہ دیا ہے اور تکنیکی انٹیلیجنس، جیسے فیشل ریکگنیشن ڈیٹا کا مختصر ذکر کیا ہے۔

تجزیہ کاروں اور سفارتی ذرائع کے مطابق بھارت کا یہ طرز عمل دو ممکنات کی نشاندہی کرتا ہے: یا تو بھارت کو مزید شواہد اکٹھے کرنے کے لیے وقت درکار ہے، یا پھر موجودہ عالمی بے چینی کے ماحول میں بھارت سمجھتا ہے کہ اسے کسی کارروائی کے لیے زیادہ وضاحت دینے کی ضرورت نہیں۔

نیویارک ٹائمز نے متنبہ کیا ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں جوہری طاقتیں ہیں، اور کسی بھی عسکری تصادم کے تیزی سے بگڑنے کا خدشہ ہے، لیکن موجودہ عالمی حالات میں بھارت کو اپنے اقدامات محدود رکھنے کے لیے کسی بڑے دباؤ کا سامنا نہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایران اور سعودی عرب نے دونوں ممالک سے رابطے کیے ہیں اور ایران نے ثالثی کی پیشکش کی ہے جبکہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے تحمل اور مذاکرات کی اپیل کی ہے۔ تاہم امریکہ سمیت بڑی طاقتیں دیگر بحرانوں میں الجھی ہوئی ہیں جس کا فائدہ بھارت کو ہو رہا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھرپور حمایت کا اظہار کیا ہے، مگر یہ واضح نہیں کہ امریکہ اس تازہ تنازع میں کس حد تک مداخلت کرے گا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق سابقہ بحران، یعنی 2019 کی کشیدگی میں بھی امریکہ نے بھارت کو ابتدائی حمایت دی تھی اور صرف بعد میں تحمل پر زور دیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حملے کے حوالے سے صورتحال ابہام کا شکار ہے اور حملہ آوروں کی تعداد اور ان کی شناخت کے بارے میں بھی مصدقہ معلومات موجود نہیں ہیں۔ ایک غیر معروف تنظیم ”ریزیسٹنس فرنٹ“ نے سوشل میڈیا پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، تاہم بھارتی حکام اسے لشکرِ طیبہ کا ایک نیا چہرہ قرار دے رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بھارت اس وقت پاکستان کے ماضی کے دہشت گردی سے تعلقات کو بنیاد بنا کر عسکری کارروائی کے لیے جواز تراش رہا ہے جبکہ ٹھوس شواہد تاحال پیش نہیں کیے گئے۔ ایک سفارت کار نے خفیہ طور پر سوال اٹھایا کہ کیا کسی ایٹمی ملک کے ساتھ محض ماضی کے رجحانات کی بنیاد پر جنگ چھیڑنا دانشمندی ہے؟

رپورٹ کے مطابق سابق بھارتی قومی سلامتی مشیر شیو شنکر مینن نے کہا ہے کہ نریندر مودی کے لیے عسکری کارروائی کرنا ناگزیر ہو چکا ہے کیونکہ 2016 اور 2019 میں بھی حملوں کے بعد بھارت نے پاکستان پر حملے کیے تھے۔ مینن نے تاہم امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کی دشمنی ایک ”کنٹرول شدہ دشمنی“ کے دائرے میں رہے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *