|

وقتِ اشاعت :   4 hours پہلے

فوجی عدالتوں سے متعلق کیس میں جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ پالیسی فیصلہ حکومت جو مرضی کرے عدالت نے تو اپنا کیس دیکھنا ہے۔ حکومت کے پالیسی فیصلے سے مقدمہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ پالیسی فیصلہ بھی کرلیں کہ سول نظام ناکام ہوچکا ہے سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں۔ پارلیمنٹ کی صوابدید ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرے یا نہ کرے۔

سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیس کی سماعت آج بھی جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے کی۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ 3 نکات پر دلائل عدالت کے سامنے رکھوں گا۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ 9 مئی کو کیا ہوا تھا؟ دوسرا نکتہ عدالت کو کرائی گئی یقین دہانیوں پر عملدرآمد کا ہے، تیسرا نکتہ اپیل کا حق دینے سے متعلق ہے۔ گزشتہ ہفتے فیصلہ ساز نہروں کے مسئلے اور پاک بھارت تنازع میں مصروف رہے۔ اپیل کے حق والے نکلتے پر حکومت سے مشاورت کے لیے مزید ایک ہفتہ درکار ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پالیسی فیصلہ حکومت جو مرضی کرے عدالت نے تو اپنا کیس دیکھنا ہے۔ حکومت کے پالیسی فیصلے سے مقدمہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ پالیسی فیصلہ بھی کرلیں کہ سول نظام ناکام ہوچکا ہے سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں۔ پارلیمنٹ کی صوابدید ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرے یا نہ کرے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کو تینوں نکات پر دلائل کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے کہا 45 منٹ میں دلائل مکمل کرلوں گا۔ قانونی نکات پر خواجہ حارث دلائل مکمل کرچکے ہیں۔ عدالت نے مزید سماعت 5 مئی تک ملتوی کر دی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *