افغانستان میں طالبان حکومت نے ایک اور ثقافتی پابندی عائد کرتے ہوئے شطرنج کے کھیل کو مکمل طور پر ”حرام“ قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی ہے۔ طالبان کی جنرل ڈائریکٹوریٹ برائے کھیل و جسمانی تربیت کے ترجمان اتل مشوانی نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ شطرنج پر پابندی شرعی وجوہات اور افغان شطرنج فیڈریشن کی قیادت میں مسائل کی بنیاد پر لگائی گئی ہے۔
برطانوی اخبار ”ڈیلی اسٹار“ کے مطابق پابندی کے بعد افغان شطرنج فیڈریشن کو تحلیل کر دیا گیا ہے، اور شطرنج کھیلنے کی کسی بھی شکل کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ نو مئی کو جب مقامی شطرنج کھلاڑیوں نے حکومت سے ٹورنامنٹس کے لیے مالی معاونت کی درخواست کی، تو انہیں نہ صرف انکار کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ساتھ ہی کھیل پر مکمل پابندی کا اعلان کر دیا گیا۔ اگرچہ اس پابندی کی ابھی تک باضابطہ تحریری دستاویز سامنے نہیں آئی، مگر طالبان حکومت نے اس پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔
فیڈریشن کے نائب چیئرمین، جنہیں مقامی میڈیا میں صرف ”ویس“ کے نام سے پکارا، انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ادارہ جاتی حمایت یا اجازت کے بغیر شطرنج افغانستان سے مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’شطرنج اب عوامی زندگی سے غائب ہوتا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے عالم دین علی السیستانی کے حوالے سے بتایا کہ شطرنج اسلام میں اس کے جوئے سے منسلک ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے، کیونکہ یہ ذہنی جنون اور دینی فرائض سے غفلت کی طرف لے جا سکتا ہے۔
طالبان حکومت اپنی تمام پابندیوں کو اسلامی شریعت کی تشریح کے طور پر پیش کرتی ہے، لیکن نقادوں کا کہنا ہے کہ یہ مذہب کی آڑ میں تشدد پر مبنی حکمرانی کو جواز دینے کی کوشش ہے۔
Leave a Reply