کو ئٹہ /اسلام آباد: تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ وپشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین اور رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ،افغانستان اور چین کے وزراء خارجہ نے بیجنگ کے اجلاس میں مل بیٹھ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایک دوسرے کی خودمختیاری کا خیال رکھا جائے گایہ ہماری سیاست کی مثبت تبدیلی ہے کہ پاکستان بھی اس پر متفق ہے کہ یہ خطہ دوسرے قوتوں کی جنگ کا مرکز نہ بنے ۔
اس سے قبل ماسکو نے افغانستان میں سفارت کھولنے کا کہا ہے ۔ موجودہ حکومت زر اور زورکی بنیاد پر آئی ہے ڈنڈے کے زور پر لوگوں کو دہشت زدہ کرکے آئی ہے ، تحریک انصاف الیکشن جیتی ہوئی پارٹی ہے بجائے اس کے کہ ان کے ساتھ ایک شریفانہ برتائو کیا جائے ان غلطیوں کے ازالے کے لیے جو ماضی میں ہوئی ہیں ان کے ساتھ مذاکرات کیئے جائے اور مذاکرات اس انداز میں نہیں کہ میری حکمرانی تسلیم کرو ۔ مذاکرات اس لیئے کہ آئیں جو غلطیاں ہوئی تھیں اس کا ازالہ مل بیٹھ کر کرے ۔
یہاں پارلیمنٹ میں ممبران بتارہے تھے کہ ہم نے اپنے تقریروں کا ریکارڈ لینے کے لیے درخواستیں دی ہیں لیکن ہمیں اپنی تقاریر کی کاپی دینے سے وہ انکاری ہیں اس لیے میں نے ان کو حوالدار سپیکر کا لقب دیا ہے ۔میرا وہ فتویٰ تو پھر ٹھیک ہے حوالدار سپیکر کو یہ بات سمجھ آنی چاہیے کہ یہ پارلیمنٹ ایک پارٹی کی تابع نہیں ہونی چاہیے یہ پارلیمنٹ ملک کے 25کروڑر انسانوں کی مشترکہ پارلیمنٹ ہے ۔ ایک سابق سفیر جس کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کابل کے افغان رہنمائوں چاہے وہ شمال ،جنوب کے ہوں یا کرزئی صاحب ہو یا طالبان ہوں ان کے ساتھ اس آدمی کے بڑے اچھے دوستانہ تعلقات ہیں اس کا فائدہ اُٹھا کر خطے کی اتحاد واتفاق کے لیے کوشش کرنی چاہیے ۔ روزانہ جوہر چمگادڑ فیلڈ مارشل بن کر فتوے دیتا ہے اس پر پابندی ہونی چاہیے کہ ٹی ٹی پی ہے فلاں ہے افغانستان سے حملہ کررہے ہیں ۔اس پر ایک ایسا نظام بنانا چاہیے کہ وہ بھی تحقیقات کرے اور آپ بھی تحقیقات کرے ایک دوسرے پر الزام تراشی سے حالات مزید خراب ہوں گے ۔ افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے کبھی اُن کے ساتھ جھگڑے نہیں ہوئے اختلافات ہر جگہ ہوتے ہیں ، کنٹرول لائن پرانڈیا کے ساتھ اختلافات ، چین اور انڈیا کے اختلافات ، ہمارے درمیان چھوٹی بڑی اختلافات ہوں گے اُس سے ایک مستقل دشمنی اس خطے کے لیے بربادی ہوں گی ۔ ہمارے خطے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنے اختلافات کے باوجود کوشش کریں کہ اس خطے کو جہانی سانڈوں کا میدان جنگ بننے نہ دیا جائے۔
میں پشتونخواملی عوامی پارٹی اور تحریک تحفظ آئین پاکستان کی طرف سے اس نشست کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے خوش آمدید کہتے ہیں کہ افغانستان ، پاکستان ، چین کے درمیان سی پیک کی توسیع کا فیصلہ خوش آئند ہے ۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ یہ حکومت ٹھیک نہیں کررہی ہے شہباز شریف بھی جانتا ہے کہ یہ حکومت پاکستان کے عوام پر مسلط کی گئی ہے جو ادارہ یا فرد اس غلط حکومت کو سپورٹ کررہی ہے وہ آئین کے ساتھ مذاق کررہے ہیں ۔
آئین کی بحالی کی کوشش کرتے ہوئے آئین کے تحت اس ملک کو چلانا چاہیے ۔حال ہی میں پاکستان اور رہندوستان کے مابین بڑی لڑائی ہوتے ہوتے بچی ۔ ہم خاموش رہے ۔
سب نے دیکھا کہ یہاں ہر آدمی چمگادڑ کی طرح کھڑے ہوجاتا فیلڈمارشل رومیل کی طرح اور کہتا کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہیں ۔
پتہ نہیں ان کا دماغ کام کرتا ہے کہ نہیں ۔
دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ ایک طاقتور ملک کے ایک ذمہ دار ترین شخص نے کہا کہ اگر ہم مداخلت نہ کرتے تو یہاں لاکھوں لوگ مرجاتے ۔ یہ پاکستان اور ہندوستان کے لوگوں کا مذاق ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کے جمہوری ، عسکری ، غیر جمہوری لوگ ہمارے ہزار اختلافات صحیح لیکن مودی اینڈ کمپنی اور شہباز اینڈ کمپنی کیا ہم اتنے گزرے ہیں کہ بات بات پر ایٹم بم پھینکے کی بات کرینگے اس بات پر بالکل پابندی ہونی چاہیے ۔
ایک دفعہ غلطی سے ایٹم بم کا استعمال ہوا وہ اب بھی کان پکڑ کر بیٹھے ہیں ۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ عمران خان کی پارٹی الیکشن جیتی ہے ، مذاکرات ایسے ہوں کہ ہم سب کی عزت کا لاج ہو باعزت طریقے سے عمران خان جیل سے باہر آئے اور ڈائیلاگ ہو پھر اگر اس پر ہم متفق ہوجائے ضروری نہیں کہ یہ حکومت کرے حکومت باڑ میں جائے مقدم اور مقدس پاکستان کا امن اور اس کی سیاست ہے ۔ اور اس کے لیے ہمارے سیاسی لوگوں کے درمیان بھائی بندی ، رواداری وقت کی ضرورت ہے جو اسے نہیں کرتا وہ پاکستان کی دشمنی کرتا ہے ۔
ہم سب کو اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے ۔
شہباز شریف ، خواجہ آصف ،ایاز صادق سب سے پوچھا جائے کہ الیکشن کون جیتا ہے اس کے نتائج کیا تھے۔
سیاست کو ہمیں شطرنج یا کبڈی کی طرح نہیں کھیلنا کہ ہماری ٹیم ہے اور ہم نے جیتنا ہے ۔
ایسانہیں ہوگا ۔
ہمیں اصولوں کے تحت چلنا ہوگا اور اس اسمبلی کو چلانا ہوگا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے احتجاج ہوا لوگوں کا حق ہے کہ وہ احتجاج ، جلسے ، جلوس کرے اور اپنے ملک میں آئین کی بالادستی کے لیے کام کرے ۔
جنگی ماحول میں ہم نے اپنی سرگرمیاں معطل کی اور اب ہم دوبار شروع کرینگے، آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس ملک میں ایسی جمہوری حکومتوں کے لانے کی کوشش کرینگے جہاں طاقت کا سرچشمہ عوام کی منتخب پارلیمنٹ ہو، آئین بالادست ہو، ہر ادارہ آئین کے فریم میں رہ کر کام کرے پھر یہ پاکستان چلے گا بھی اورقوموں کی قطار میں ایک بہترین پروقار ملک کے قابل بھی ہوجائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں محمود خان اچکزئی نے کہا کہ میری اس حکومت سے کوئی دشمنی نہیں لیکن ناجائز حکومت کے ساتھ بیٹھنا غلط ہے البتہ ہماری بات چیت صرف اس لیئے ہوں گی کہ کوئی یہ کہے کہ ہم سے غلطی ہوگئی ہے ہم اس کی اصلاح کریں، ہم سب انسان ہیں سب نے مل بیٹھ کر اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنی ہوں گی۔ ایک سوال کے جواب میں محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اگر انسان میں تھوڑی سی شرافت اور اپنے ملک سے محبت ہو اس قسم کی حکومت اگر آپ کسی شریف آدمی کے سامنے پلیٹ میں رکھ کر بھی دے دیں تو وہ انکار کریگااور کہے گا کہ میں نہیں وہ فلاں آدمی جیت چکا ہے۔ اگر حالات غلط ہے تو یہ بھی ہوسکتا تھا کہ ہم ایک قومی حکومت بنا لیتے لیکن ہر ادارے کو اپنے آئینی فریم ہوتا۔یہاں کہاں جاتا ہے کہ عمران خان اور اس کی اہلیہ پر توشہ خانہ کا الزام ہے یہ بات تب ماننے کے قابل ہوتی کہ ہم سب پاک لوگ ہیں
کسی نے نہ خود نہ اس کے کسی رشتہ دار نے کوئی چوری نہیں کی۔ ہماری معلومات یہ ہے کہ ایک ایک ووٹ کے لیے تقریباً 90کروڑ بھی استعمال ہوئے ہیں جب آپ یہ کام کرتے ہیں تو توشہ خانہ کی چوری کا الزام لگا کر لوگوں کو تنگ کرنا نفرتوں کی بیج بونا یہ پاکستان کے لیے خطرناک ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں محمود خان اچکزئی نے کہا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل افغانستان کے متصل تمام ہمسایہ ممالک کی ایک کانفرنس بلائے جس میں افغانستان سے ہمسایوں کے خدشات اور افغانستان کے اپنے ہمسایوں سے خدشات پر سیر حاصل گفتگو ہو اور نتیجے میں ایک ایسا معاہدہ تشکیل پائے کہ سارے ممالک ایک دوسرے کی استقلال اور آزادی کے احترام اوراندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے پابند ہوں، اس معاہدے کی ضامن اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے تمام رکن ممالک ہوں۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس خطے میں دو بڑی طاقتیں روس اور چین اس بات کے حق میں ہے کہ یہاں لوگوں کے مابین بھائی بندی ہوں وہ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ مداخلت کار کون ہیں اور وہ یہ روک سکتے ہیں۔ افغانستان آپ کا بہترین دوست ہوسکتا ہے۔
افغان یہاں آئے یہاں پر چالیس سال گزار چکے ہیں یہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے آپ کے ملک کے شہری ہیں۔ نواز شریف کی حکومت تھی اُس میں ہم نے کمیٹی بنائی اُس میں ہم سب تھے یعنی پارٹیوں کے اکابرین بھی موجود تھے اُس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ جو افغان بچہ یہاں پیدا ہوا ہے اُسے شہریت دی جائے۔
بلوچستان، پنجاب، سندھی،خیبر پشتونخوا کے ہزاروں بچیوں کی شادیاں افغانوں کے ساتھ ہوئی ہیں تو کیا آپ انہیں بھی نکالیں گے۔ دنیا ایسا کرتی ہے کہ جن جن لوگوں کے ساتھ ان کی بچیوں کی شادی ہوجائے تو انہیں شہریت دے دی جاتی ہے۔دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا تھا کہ 12لاکھ پاکستانی دوہری شہریت رکھتے ہیں۔
انگلینڈ، ترکی، جرمنی اور پھر پاکستان کی شہریت بھی رکھتے ہیں۔ اس میں کونسی بُری بات ہیں آپ بھی ان افغانوں کو دوہری شہریت دے دیتے۔آپ کاشناختی کارڈ بھی ان کے ساتھ ہوتا اور اپنا تذکرہ بھی۔
اس کا یہ فائدہ بھی ہوتا کہ جو آدمی دوہری شہریت رکھتا ہے وہ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا وہ اسمبلی کا ممبر نہیں بن سکتا۔ پاکستان اور افغانستان کا باڈر ہوتے ہوئے بھی نہیں ہونی چاہیے تھی
ہمارے درمیان ایسی بھائی بندی بن جاتی کہ یہاں کے لوگ کابل اور وہاں کے کراچی تک آجاسکتے۔اب بھی اس کا تقاضایہ ہے کہ میری ذاتی تجویز ہے کہ میاں محمد نواز شریف یہ کرسکتے ہیں۔
افغانوں کو اپنے سے بیگانہ نہ کرے۔ کرکٹ انگریزوں کی کالونیوں میں کھیلی جانیوالے کھیل تھی
افغان بچوں نے یہاں یہ کھیل سیکھا اور آج دنیا کے ساتھ اس کھیل میں مقابلہ کررہے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں محمود خان اچکزئی نے کہا کہ افغان کا لفظ آپ علیحدہ کرلے مہاجرین دنیا بھر میں ہیں۔ دنیا کے جو قوانین ہیں مہاجرین کے لیے اس پرعملدرآمد کرلیں۔
میں معافی چاہتا ہوں مغربی دنیا کی شہریت حاصل کرنے کے لیے ہم اپنے بہو، بیٹیوں کو وہاں لیجاتے تاکہ وہ وہاں پر بچے جنے اور وہاں کی شہریت انہیں مل سکے۔ لیکن یہاں افغان رہے ہیں انہوں نے یہاں بچے جنے ہیں۔
بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو یہاں کی یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے ہیں اور وہاں افغانستان میں وزیر ہیں۔جو یہاں سے پڑھا ہوگا اور وہاں وزیر ہوگا تو آپ کے پاس اس سے بہتر کونسا موقع ہوسکتا ہے کہ آپ ان کے ساتھ تعلقات استوار کرے۔
ایک سوال کے جواب میں محمود خان اچکزئی نے کہا کہ گزشتہ دنوں بھارت کے ساتھ لڑائی میں یہاں ہر کوئی فیلڈ مارشل بنا ہوا تھا اور ایٹم بم پھینکنے کی باتیں کررہا تھا۔پتہ نہیں کس ادارے نے یا وہ کرسکتے ہیں کہ نہیں کرسکتے
اگر وہ کسی کو فیلڈ مارشل بناتا ہے یعنی میں اس کے لیے امیدوار نہیں تھانہ ہوں کہ میں یہ کہوں کہ میری پوسٹ فلانی کو دے دی گئی ہے۔بہر حال ہمارے افواج بالخصوص ہماری ایئر فورس جو ہم نے سُنا دیکھا ہے کہ فضائیہ نے کافی اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔لیکن اس کو بار بار کہتے ہیں یہ نہیں سمجھتے ہیں۔
ان کو بولیں خاموش کرے کہ ماضی میں پائلٹ آیا اور ہم نے یوں چائے پلائی۔ دُکھ ہوتا ہے شہباز شریف کو دنیا پاکستان کا وزیر اعظم کہتی ہے اور اُس نے ایک غلط بات کی کہ میڈیا نے بھی چلائی کہ ہم نے 1971ء کا بدلہ لیا۔ کیا ایک یا دو دن میں بدلہ پورا ہوا؟ کیا ہم نہیں جانتے 1971ء میں ہماری افواج، ہماری سالمیت،خودمختاری، ہمارے عوام کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ نقوی صاحب بھی کچھ کہہ دیتے ہیں
کہ ہمارا ماضی ایسا تھا، اسلام کی بات کرتے ہیں کونسا بدلہ ساری دنیا ہنسے گی۔ 57اسلامی ممالک ہیں اس کے افواج ہیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے فلسطینی عوام کی جو نسل کشی جاری ہے یہاں پھر اسلام اور بم وغیرہ کہاں ہیں۔
ہمیں بڑی احتیاط سے بات کرنی چاہیے۔ دفتر خارجہ، داخلہ کے ذمہ دار اگر بات کرے تو ٹھیک ہیں لیکن ہر آدمی کو نہیں بولنا چاہیے اور بالکل پابندنی ہونی چاہیے جو آدمی ایٹم بم کا نام لیں اسُے فوراً گرفتار کرنا چاہیے۔
Leave a Reply