تعلیم کی حقیقی ترقی کا راز تخلیقی صلاحیت اور تنقیدی سوچ میں پوشیدہ ہے۔ بدقسمتی سے، بلوچستان میں قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ہمارا تعلیمی نظام رٹنے ( learning rote) پر مبنی رہا ہے۔
پرائمری سے لے کر جامعات تک، بیشتر کلاسوں میں اساتذہ بورڈ پر جوابات لکھتے ہیں یا نوٹس دیتے ہیں، اور طلباء انہیں کاپی کرتے ہیں۔ گھر جا کر وہی مواد زبانی یاد کرتے ہیں اور امتحان میں لفظ بہ لفظ نقل کر دیتے ہیں۔ اساتذہ پورے نمبر دے کر خوش ہو جاتے ہیں، طلباء اپنی ‘‘کامیابی’’ کا جشن مناتے ہیں اور والدین فخر محسوس کرتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جو طالبعلم اپنے خیالات سے کچھ مختلف جواب دیتا ہے، اْسے نالائق یا گستاخ سمجھا جاتا ہے۔
اگر کسی کو یقین نہ ہو تو وہ بلوچستان کے کسی بھی کالج کے طلباء سے چھٹی کے لیے درخواست انگریزی میں لکھوائے۔ گوادر سے کولْو تک اور حب سے چمن تک، سب ایک ہی جملے سے شروع کریں گے:
’’I beg to say that I have an urgent piece of work—‘‘
انگریزی، سائنس اور ریاضی جیسے مضامین بھی اسی رٹے کے انداز میں پڑھائے جاتے ہیں۔ کئی میتس یعنی ریاضی کے اساتذہ اس مضمون کو ‘‘موت’’ کہ لقب سے نوازتے ہیں، جو ان کی خود ریاضی سے ناآشنائی کو ظاہر کرتا ہے۔ جب اساتذہ کسی سبجکٹ کو اس نظریہ سے دیکھتے ہیں، یقینا طلباء کیلئے ذہنی مشکلات کا پیش آنا فطری بنتا ہے۔
یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا نظام حفظ پر مبنی ہے۔ اساتذہ، طلباء اور والدین سب اس آسان دائرے میں خوش ہیں۔ نتیجتاً، ہم ایسے فارغ التحصیل طلباء تیار کر رہے ہیں جو نہ پڑھ سکتے ہیں، نہ لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی تخلیقی یا تنقیدی انداز میں سوچ سکتے ہیں۔
عصرِ حاضر کی تعلیم میں چار اہم عناصر ( Cs Four) کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے۔
عالمی مورخ یووال نوح حراری اپنی کتاب Century 21st the for Lessons 21 میں لکھتے ہیں کہ آج کی تعلیم چار بنیادی ستونوں پر کھڑی ہونی چاہیے:
1۔ تنقیدی سوچ ( Thinking Critical)
2۔ تخلیقیت (Creativity)
3۔ اشتراک و تعاون (Collaboration)
4۔ ابلاغی مہارت (Communication)
یہ چار عناصر ترقی یافتہ ممالک کے نظامِ تعلیم کی بنیاد ہیں اور انکی تعلیمی کامیابی کا ضامن بھی ، جبکہ ہمارے ہاں اب بھی روایتی اندازِ تعلیم کا سفر رواں دواں ہے۔
ناکامی کی بنیادی وجوہات
1۔ ناقص نصاب نویسی اورغیرتجربہ کار ماہرین
ہمارے نصاب اور درسی کتب لکھنے والے اکثر اس میدان کے ماہر نہیں ہوتے۔ ایک اچھے نصاب نویس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کم از کم نصاب سازی یا تعلیم کے میدان میں پی ایچ ڈی ہو۔ بلوچستان میں متعدد کتابیں ایسے افراد لکھ رہے ہیں جو اخبار نویس تو ہیں مگر تعلیمی مہارت سے نابلد۔ انگلش کی کتاب لکھنے والے کو نہ کردار (characters) کا علم ہے، نہ کہانی کی ساخت (plot) کا۔ ریاضی کی کتاب لکھنے والا خود بنیادی سوال حل نہیں کر سکتا۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے تیرنا نہ جاننے والا تیراکی سکھانے لگے۔
2۔ غیرتربیت یافتہ اساتذہ
بیشتر اساتذہ نہ صرف چار سی (4Cs) سے لاعلم ہیں بلکہ وہ روایتی ‘‘تین آرز’’—Reading، Writing اور Arithmetic—کو بھی صحیح انداز میں نہیں سکھا پاتے۔ انگریزوں نے برصغیر کو غلام رکھنے کے لیے یہ طریقہ تعلیم رائج کیا تھا۔ بلوچستان حکومت کے مطابق میٹرک پاس کرنے والے 70 فیصد طلباء لکھنے اور پڑھنے کی بنیادی صلاحیتوں سے بھی محروم ہیں۔
3۔ حکومت کی غیر سنجیدگی
بلوچستان میں تعلیم کبھی بھی حکومتی ترجیح نہیں رہی۔ صوبے میں 30 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ جو اسکول میں ہیں، ان میں سے چند ہی اس فرسودہ نظام میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ تحقیقی نتائج بتاتے ہیں کہ جب تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو معیار بھی ممکن ہوتا ہے—بشرطیکہ نظام مضبوط ہو۔
حقیقی اصلاح کے لیے ہمیں درج ذیل اقدامات اٹھانے ہوں گے:
• فیصلہ ساز عہدوں پر اہل اور مخلص افراد کا تقرر
• نصاب لکھنے والوں کا شعبہ جاتی ماہر ہونا
• اساتذہ کی میرٹ پر بھرتی اور مستقل پیشہ ورانہ تربیت
• تدریسی عمل میں Cs Fourکا اطلاق
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بلومز ٹیکسونومی جیسے تعلیمی ماڈلز پر بھی عملدرآمد کرنا ہوگا، جس میں علمی ارتقاء کے دو درجے بیان کیے گئے ہیں:
• Skills Thinking Order Lower (LOTS): یادداشت، فہم اور اطلاق
• Skills Thinking Order Higher (HOTS): تجزیہ، ترکیب، اور تنقید
بدقسمتی سے ہمارا موجودہ نظام صرف LOTS پر مرکوز ہے۔ ہمیں اب HOTS کی طرف بڑھنا ہوگا تاکہ طلباء سوال اٹھانا، تجزیہ کرنا اور تخلیق کرنا سیکھیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم روایتی طریقوں سے ہٹ کر مستقبل کی طرف دیکھیں۔یہ تعلیمی نظام جو صرف رٹنے پر مبنی ہے، بچوں کو ایک غیر یقینی اور تیز رفتار دنیا کے لیے تیار نہیں کر سکتا۔
جیسا کہ سر کین رابنسن نے اپنی کتاب Schools Creative میں کہا:
‘‘ہم اپنے بچوں کو ایسے مستقبل کے لیے تعلیم دے رہے ہیں جسے ہم خود نہیں جانتے۔ تخلیقیت اتنی ہی ضروری ہے جتنی خواندگی—اور ہمیں اسے اتنا ہی درجہ دینا چاہیے۔’’
آئیے، ہم رٹنے سے تخلیق، نقل سے جدت، اور خواندگی سے شعور کی طرف سفر کریں۔
Leave a Reply