|

وقتِ اشاعت :   October 23 – 2018

دالبندین: موجودہ حکومت کا محکمہ تعلیم میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان ضلع چاغی میں گزشتہ دس سالوں سے اساتذہ کی 400 سے زائد اسامیاں خالی 40 پرائمری اسکول بند حکومتی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔

تفصیلات کے مطابق عالمی شہرت یافتہ اور خزائن کی سرزمین کہلانے والی ضلع چاغی میں محکمہ تعلیم کی زبوں کا حالی اس بات سے لگائی جا سکتی ہے کہ دور جدید میں ضلع کے طالب علم سائنس ریاضی کمپیوٹر اور دیگر جدید علوم سے نابلد ہوتے جارہے ہیں ۔

کیونکہ صوبائی حکومت نے تو تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے جو کہ محض اخبارات اور کاغذوں کی حد تک محدود ہے علمی طور ایمرجنسی کا کچھ بھی ہوتا ہوا نظر نہیں آر ہا ضلع چاغی میں تین ہائیر سیکنڈری اسکولز ہیں جہاں پر بچوں کو پڑھانے کیلئے ٹیچرز میسر نہیں محکمے میں اساتذہ اور کلرکس سمیت 400 سے زائد اسامیاں گزشتہ دس سالوں سے خالی پڑی ہوئی ہیں ۔

ضلع چاغی میں اس وقت پرائمری سیکشن کے 92 ٹیچرز ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور 40 پرائمری اسکولز مکمل طور پر بند ہیں ایک عام جائزے کے مطابق ضلع چاغی میں اس وقت40 ہزار سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے جبکہ افغان مہاجر کیمپ گردی جنگل میں 20 ہزار بچوں نے اسکولوں کا منہ تک نہیں دیکھا ہے ۔

عرصہ دراز سے محکمہ تعلیم میں بھرتیاں نہ ہونے این ٹی ایس کے پیچیدہ نظام اور پبلک سروس کمیشن کے امتحان نے بھی رہی سہی کسر پوری کر دی ہے محکمہ تعلیم میں بھرتی کے خواہشمند حضرات نے مایوس ہو کر لیویز پولیس اور دیگر محکموں کے علاوہ ر وزگار اور تجارت پر توجہ مذکور کر دی ہے ۔

کسی بھی ملک و قوم اور معاشرے کی ترقی کا دارومدار تعلیمی شعبے کی مفاہت اور علم پر منحصر ہے مگر افسوس کہ ایٹمی دھماکوں سونے چاندی اور اہم جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل سرزمین کے مالک ہزاروں بچے جب اسکولوں کا رخ کرتے ہیں تو اساتذہ کی کمی یا عدم دستیابی کے سبب وہ مایوس لوٹ جاتے ہیں ۔

اس وقت دنیا کے ترقیافتہ ممالک نت نئے ایجادات کر کے زندگی کو آسان اور پر لطف بنا رہے ہوتے ہیں مگر افسوس کہ ہم ٹیچر کا نہ ہونااور تعلیمی مسائل کا رونا روتے ہیں جو کہ حکمرانوں کی نا اہلی اور تعلیمی دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے