|

وقتِ اشاعت :   October 28 – 2018

8اپریل 2010کوپارلیمنٹ سے منظور ی کے بعدملکی آئین کا حصہ بننے والی 18ویں ترمیم آخر ہے کیا ؟ جو اس کی منظوری پر ایک طرف ملک میں جشن منائے گئے تو دوسری طرف سندھ کے قوم پرستوں کی جانب سے صوبہ بھر میں ہڑتالیں کی گئیں اور سخت احتجاج کیا گیا۔ 

وفاق پرست جماعتوں نے اس ترمیم کو1940کی قرارداد اور قائد اعظم کے 14نکات کے تحت کیے گئے وعدوں کی تکمیل کی جانب ایک ابتدائی قدم قرار دیتے ہوئے اُسے اتفاقِ رائے سے منظور کیا تھا اور اسے جمہوریت کی فتح قرار دیا تھا ۔جبکہ قوم پرستوں کا موقف یہ رہا کہ اس ملک کے قیام میں مختلف قومیں باہمی اتحاد اور برابری کے نظریے کی بنیاد پریکجا ہوئی تھیں اور جمہوریت کا مطلب برابری ہے، اور ملکی جمہوری پارلیمانی نظام میں برابری صرف اور صرف سینیٹ کے پاس تھی۔ 

اس لحاظ سے ملک میں برابری اور باہمی اتحاد کا ماحول تب ہوگا ، جب اختیارات صوبوں اور سینیٹ کے پاس ہوں گے اور وفاق بھی حقیقی معنوں میں تبھی مستحکم ہوگا، جس کے لیے وہ امریکا کی مثال دیتے رہے ہیں ۔جبکہ 18ویں ترمیم سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ اس سے صدر کے اختیارات پارلیمنٹ کو گئے ہیں لیکن سینیٹ اور صوبوں کو برابری و اختیارات نہیں دئیے گئے ۔ 

اس وقت ملک میں 18ویں ترمیم کے خاتمے کے حوالے سے خبریں گردش میں ہیں اور مضبوط مرکزیت کی سوچ کی حامل قوتیں سمجھتی ہیں کہ مالی و سیاسی اختیارات وفاق کے پاس ہونے چاہئیں ۔ اسی لیے تمام وفاق پرست جماعتیں صوبائی خودمختاری کی حامی ہونے کے باوجود صوبوں کو وسائل پر اختیار دینے سے گریز کرتی رہی ہیں ۔دیکھا جائے تو 70سالہ ملکی تاریخ میں اقتدار تین فریقوں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ اور ملٹری راج کے ہاتھ رہا ہے۔ 

بظاہر تو یہ تینوں الگ الگ نظریات کے حامل ہیں لیکن تینوں کا مقصد ایک ہے ۔ تینوں نے اقتدار کے دوران عملی طور پر مرکز کو مضبوط کرنے کا کام کیا،مختلف قانون بنائے اور ان پر عمل کرایا لیکن تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ یہ پالیسی غلط تھی ۔ جس طریقوں سے ملک چلایا گیا ہے، وہ ملک کے فائدے میں نہیں رہے ۔ اور 70سالہ تجربات بتارہے ہیں کہ اس سے وفاق و صوبے دونوں ہی کمزور ہوتے رہے ہیں ۔ 

ملک دو لخت ہوا ، وسائل کی لوٹ مار جاری و ساری ہے ، ایک مخصوص ٹولہ مرکز پر حاوی رہا ، ملک میں بنیاد پرستی بڑھتی رہی اور وفاق اور صوبوں میں ٹکراؤ کی صورتحال رہی ہے ۔اور انہی طریقوں اور پالیسیوں کا نتیجہ موجودہ معاشی و سیاسی بحران ہے۔ 

دنیا بھر کے جمہوری ملکوں میں آئین میں اصلاحی ترامیم عوامی خواہشات و مفاد میں اورملک و ملت کے استحکام کے لیے کی جاتی ہیں لیکن ہمارے یہاں ان ترامیم کو عوامی مفاد کے بجائے اداراتی مفادات سے جوڑا جاتا ہے ۔ 

شاید اسی لیے اب تک ملک مستحکم نہیں بن پایاہے اور بے شمار وسائل ہونے کے باوجود ہم مالی طور پر آج بھی بھکاری بنے ہوئے ہیں ، ہم بہترین جغرافیائی و سوشیو پولیٹیکل حیثیت رکھنے کے باوجود دنیا کی نظر میں کرائے کے ایک قاتل یا پھر ٹشو پیپر سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں کرسکے ہیں ۔ اور یہ سب اس مضبوط مرکزیت والی تھیوری کی آڑ میں عوامی مفاد کے بجائے مخصوص گروہ کے مفادات کے لیے کی گئی تمام تر قانون سازی اور پالیسیوں کی بدولت ہے ۔

یہ مخصوص گروہ کبھی آمریتی روپ میں تو کبھی ایل ایف اوجیسے قانونی مسودوں کے روپ میں اور کبھی مذہبی و لسانی انتہا پسندی کے روپ میں جلوہ گر ہوتا رہا ہے۔ 18ویں ترمیم کو جب اسی تناظر میں دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ اختیارات تو پارلیمنٹ کو منتقل ہوئے ہیں لیکن پارلیمان میں قومی اسمبلی کو اولیت حاصل ہے اور اس کی بناوٹ آبادی کی بنیاد پر ہونے کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کا برابری والا بنیادی نکتہ کمزور سے کمزور ترہوتا جا رہا ہے ۔

حالانکہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کے انتظامی اختیارات کا معاملہ کسی حد تک حل تو کیا گیا لیکن مالی وسائل کا اسم ابھی تک حل ہونا باقی ہے ۔ مالی وسائل کی تقسیم صرف اقتصادیات یا بجٹ کا حصہ نہیں جس کے اعدد و شمار سمجھے جائیں بلکہ تقسیم کے اثرات اور نتائج کو بھی نظر میں رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔

مالی وسائل کی تقسیم این ایف سی کی شکل میں ہوتی ہے ۔ جس کے دو اہم نکتے ہیں (۱) صوبوں اور مرکز کے درمیان اور (۲) صوبوں کے مابین ۔مالی وسائل کی تقسیم صرف مالی نہیں ہوتی بلکہ یہ صوبے کی ترقی اور اس کے وسائل سے جڑے ہونے کی وجہ سے اپنے جوہر میں سیاسی و انتظامی ہے ۔

اس سوال کو درست طور پر حل نہ کرنے کی وجہ سے ہی بنگال (موجودہ بنگلادیش) کو شکایت رہی ، بلوچستان ناراض اور سندھ اس نکتے پر مطالبے اور نہ ختم ہونیوالا احتجاج کرتا رہا ہے ۔ 

پی پی پی کے دور حکومت میں 7واں این ایف سی ایوارڈ دیا گیا جس میں 18ویں ترمیم کے ثمرات کی کچھ جھلک یوں نظر آئی کہ صوبوں اور مرکز کے درمیان مالی تقسیم کے دوران صوبوں کے حصے میں اضافے سے صوبوں کو ملکی قیام کے بعد پہلی مرتبہ مالی ریلیف ملا اور انہیں جی ایس ٹی کی مد میں بھی اختیارات میں حصہ دیا گیا ۔ 

ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں وفاق کو 42.5فیصد اور صوبوں کو 57.5فیصد حصہ دیا گیا ۔ حالانکہ صوبوں کے مابین تقسیم کے فارمولے پر ابھی تک اختلاف ہے جو کہ حل طلب معاملہ ہے ۔پنجاب آبادی اور باقی 3صوبے ٹیکس کی وصولی ، پس ماندگی اور غربت کی بنیاد پر تقسیم چاہتے ہیں ۔ ایک طرف تو ابھی تک اس پر مکمل طور پر عمل ہی نہیں ہوپایا ہے تو دوسری طرف مضبوط مرکزیت کی روایتی حامی قوتیں اسے ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صوبوں کے مابین تقسیم پر اختلاف کو بھی نمٹایا جاتا اور وفاق و صوبوں کے درمیان دیگر وسائل اور اختیارات کی منتقلی پر مزید پیش قدمی کی جاتی جو کہ ملکی استحکام و جمہوریت کے لیے سود مند ہوتا ۔

یوں تو اس ملک میں صوبوں کا مسئلہ مکمل صوبائی خود مختاری سے جڑا ہے اور صوبائی خودمختاری کے چار اہم جز ہیں (۱) انتظامی خودمختاری (۲) مالی خودمختاری (۳) سیاسی خودمختاری اور (۴) قانون سازی کی خودمختاری ۔

اس لیے صرف انتظامی خودمختاری کو صوبائی خودمختاری نہیں کہا جاسکتا ۔ دنیا میں جتنے بھی وفاقی ملک ہیں ان میں وفاق اور صوبوں کے لیے جدا لسٹ ہوتی ہے لیکن ہمارے یہاں کنکرنٹ لسٹ صوبوں کے حوالے کرنے کے بجائے اسے مرکز کے پاس رکھا گیا ہے یعنی جو محکمے صوبوں کے پاس ہیں وہ وفاق کے پاس بھی رکھے گئے ہیں ۔

1973کے آئین کے قیام کے وقت بھی صوبوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ کنکرنٹ لسٹ 10سال کے بعد ختم کردی جائے گی لیکن ایک طرف 45سال گزر گئے وعدہ پورا نہیں کیا گیا ۔ 1973کا آئین جمہوری دور کا ایک متفقہ آئین ہے ۔ ضیا الحق و مشرف کے آمریتی ادوار میں غیر جمہوری ترمیموں کے ذریعے اس آئین کی شکل بگاڑ کر رکھ دی گئی ،خصوصاً ضیاء نے بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے والے امتیازی کالے قوانین بنائے ۔

18ویں ترمیم کی ایک اہم بات یہ ہے کہ 1973کے آئین سے آمریتوں کی جانب سے لگائے گئے پیوند ہٹ گئے اور ملک کے بدنام ترین آمر ضیاء الحق کا نام آئین سے نکال دیا گیا ہے۔ آخر 18ویں ترمیم میں ایسا کیا ہے؟ جو وفاقی وزیر اطلاعات سے لیکر ملک کے سیکورٹی اداروں تک ،اسٹیٹس کو سے جڑے تمام کے تمام لوگ اس کے خاتمے کے لیے بے چین نظر آتے ہیں۔

اس کے لیے آئیں سرسری طور پر 18ویں ترمیم کے ان اہم کاموں کا جائزہ لیتے ہیں جس کی بناء پر یہ طوفان اٹھ رہا ہے ۔ 278آرٹیکلز پر مشتمل 1973کے آئین میں18ویں ترمیم کے تحت 100آرٹیکلز میں تبدیلیاں کی گئیں یا پھر انہیں ختم کیا گیا ۔ 18ویں ترمیم سے قبل جمہوری حکومتوں کو صدارتی فرمان سے ختم کردیا جاتا تھا اور اسمبلیاں توڑ دی جاتی تھیں جبکہ 18ویں ترمیم کے تحت صدر کو حاصل اختیارات ختم کرکے پارلیمان کو منتقل کردئیے گئے ہیں ۔

فوجی عہدوں کی تقرری اورصوبوں کے گورنرز کی تقرری سمیت صوبائی گورنرزکے اختیارات بھی پارلیمان کو منتقل ہوگئے ہیں ۔چیف جسٹس کو ججز کی تقرری کے لیے جوڈیشل کونسل ترتیب دیکر صدر کے مشورے کا پابند کیا گیا ۔ قومی مالیاتی کمیشن ،مشترکہ مفادات کی کونسل کے لیے سیکریٹریٹ قائم کرنے اور وفاقی ہائی کورٹ کی منظوری دی گئی جبکہ صوبوں کو عالمی معاہدے کرنے کے لیے بااختیار بنایا گیا ۔

آئین معطل کرنا سنگین جرم قرار دیا گیا اورکسی بھی عدالت کی جانب سے آمروں کے قدموں کو تحفظ دینے کے دروازے بھی بند ہوگئے ۔ جبکہ ملک میں کسی ریفرنڈم کو بھی پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط کیا گیا ۔

تعلیم ، صحت ، زراعت ، آبپاشی ، ماحولیات ، ثقافت ، سیاحت ، کھیل ، لوکل گورنمنٹ ، انسانی حقوق ، خوراک ،ایکسائیز ، ریوینیو ، اقلیت، ٹرانسپورٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، معدنیات ، اور غیر قانونی تارکینِ وطن سمیت 24محکمے صوبوں کو منتقل ہونے تھے لیکن عملی طور پر ان میں سے کئی محکمے اب تک وفاق کے پاس ہیں ، جبکہ منتقل ہونیوالے محکمے بھی ابھی تک وفاق میں موجود ہیں ، جنہیں ختم ہوجانا چاہئے۔ 

18ویں ترمیم کا ایک مثبت پہلو اقربا پروری اور غیرمساوی رجحانات کو رد کرنا بھی ہے ۔ ساتویں مالیاتی ایوارڈ سے قبل وفاق صوبوں کو گرانٹس کے طور پر بڑی بڑی رقومات فراہم کرتا تھا جو کہ کبھی کبھی مالیاتی ایوارڈ سے بھی زیادہ ہوتی تھیں ، یہ رقوم سیاسی مقاصد کے طور پر یا پھر احسان جتانے کے انداز میں دی جاتی تھیں لیکن 18ویں ترمیم کے ماتحت ساتویں مالیاتی ایوارڈ کے تحت اتنی ہی رقم صوبوں کو دینے کو قانونی شکل دی گئی ۔

اگردیکھا جائے تو 7ویں این ایف سی ایوارڈ دینے کے لیے جو قانونی و آئینی معاونت چاہیے تھی وہ بھی 18ویں ترمیم کے ذریعے حاصل ہوئی۔ اب صوبوں کا حصہ کم کرنے کے لیے یا صوبوں سے وسائل واپس لینے کے لیے نئی ترمیم یا 18ویں ترمیم کی واپسی کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوگی جو یقیناًموجودہ حکومت کے پاس نہیں ہے۔ 

ایسے میں ہارس ٹریڈنگ یا پھر دیگر غیر جمہوری عوامل کارفرما ہونے کے امکانات ہیں جو کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں کسی طور پر بھی ملکی مفاد میں نہیں ہوگی ۔حالانکہ عملی طور پر اہم و آمدنی والے محکمے صوبوں کو منتقل نہیں کیے گئے لیکن کچھ حد تک ہی سہی لیکن 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات و مالی وسائل حاصل ہیں لیکن ایسا ماحول بنایا جارہا ہے کہ اعلانیہ و آئینی طریقے سے نہ سہی غیر اعلانیہ ہی 18ویں ترمیم کو ختم کردیا جائے گا ۔ 

یہ بات بھی واقعی اہمیت کی حامل ہے کہ وسائل کتنے ہی کیوں نہ ہوں ، وسائل و اختیارات چاہے صوبوں کے پاس ہی کیوں نہ ہوں لیکن عوام کو فائدہ تبھی مل سکتا ہے جب گڈ گورننس موجود ہو ۔ اس لیے یہ بھی ہونا چاہیے تھاکہ 18ویں ترمیم کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے انتظامی خودمختاری کے ساتھ ساتھ دیگر تین اہم جز بھی مکمل طور پر صوبوں کے حوالے کیے جاتے۔

خیر اب بھی ان چیزوں کو ختم کرنے کے بجائے بدعنوانی کے خلاف مؤثر قانونی و آئینی ترمیم کی جانی چاہیے لیکن یہاں یہ فرائض سرانجام دینے کے بجائے کچھ قوتیں الٹا صوبوں کو حاصل آدھی خود مختاری بھی چھین لینا چاہتی ہیں ۔ جبکہ وزیر اعظم کی جانب سے آئے دن ٹیکس نظام میں تبدیلی لاکر ٹیکس کی بنیاد بڑھانے کے اعلانات ہورہے ہیں لیکن اس ٹیکس پر اختیار کس کا ہوگا اور اس کی تقسیم کس طرح ہوگی ؟ اس طرح کے سوالات بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔

موجودہ مخلوط حکومت میں موجود جماعتوں کی اکثریت آمریتی نظام کا حصہ رہی ہیں اس لیے ہوسکتا ہے کہ 18ویں ترمیم کے خاتمے کے لیے غیر جمہوری قوتوں کا دباؤ دیگر طریقوں کے علاوہ ان حکومت کی ساتھی جماعتوں کے توسط سے بھی بڑھے ،لیکن دباؤ میں آکر فیصلے کرنے سے عوامی طاقت میں کمی آئے گی جبکہ جمہوری حقیقت یہ ہے کہ عوام کی طاقت سے ہی سازشوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ 

اب اگر پی ٹی آئی تبدیلی کے نعرے کے تحت عوامی طاقت سے اقتدار میں آئی ہے تو اسے عوام کی طاقت کا بھرم بھی رکھنا ہوگا ورنہ مہنگائی میں اضافے ، کشکول توڑنے کی وعدہ خلافی اور مالی بحران میں گھری یہ حکومت 18ویں ترمیم کے خاتمے کے چکر میں کہیں قومی اتحاد اور ہم آہنگی نہ ختم کر بیٹھے۔