لائبریری معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہوتی ہے اور کتاب ا س کی عصمت ہوتی ہے۔ ازل سے بدی اور شر کی قوتیں معاشرے کو ان دو نعمتوں سے محروم کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں۔ یہ الفاظ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے معروف دانشور اور محقق ڈاکٹر شاہ محمد مری کے ہیں۔
بلوچستان کا نام ذہن میں آتے ہی ہمارا ذہن فوراً قبائلی معاشرے ، ا س سے جڑی روایات، قبائلی سرداروں، امن و امان کی بدتر صورت حال، جبری گمشدگیوں ، مسخ شدہ لاشوں اور اس نوع کے دوسرے سنگین ایشوز کے بارے میں سوچنے لگتا ہے،ایسا کرنے میں ہمارا کوئی قصور نہیں کیونکہ شب و روز قومی میڈیا پر بلوچستان کی جو تصویر کشی کی جاتی ہے ان میں ایسے ہی موضوعات سے رنگ بھرا جاتا ہے۔
بلوچستان میں ایسا کچھ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ ایسابھی وقوع پذیر ہوتا ہے جسے میڈیا نے کبھی در خور اعتناء ہی نہیں سمجھا اس لیے وہ اس ملک کے طول و عرض میں بسنے والے افراد کی نظروں سے اوجھل ہے۔
کالم کا آغاز کتاب سے متعلق ڈاکٹر شاہ محمد مری کے الفاظ سے کیا گیا۔ کتاب کلچر کے فروغ کے لیے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک قبائلی شخصیت جس تندہی اور جانفشانی سے کام کر رہی ہے وہ اس ملک میں بسنے والے کروڑوں دوسرے افراد کی طرح ہماری نظروں سے بھی اوجھل تھی تاوقتیکہ نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کراچی پریس کلب میں ایک نشست میں اس سے خود ہی پردہ اٹھایا۔ نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی بلوچستان کی سیاست کا ایک معروف نام ہے ۔
حاجی لشکری رئیسانی کے سیاسی نظریات ہر ایک کو معلوم ہیں وہ ہمارا موضوع سخن بھی نہیں ، یہاں موضوع سخن ان کی کتاب سے محبت او ر اسے فروغ دینے کا وہ مشن ہے جو ان کی زندگی کا مقصد ہے۔ کراچی پریس کلب میں منعقدہ اس نشست میں حاجی لشکری رئیسانی نے ا س راز سے پردہ اٹھایا کہ ان کے اندر کتاب کلچر کو فروغ دینے کی تحریک کیسے پیدا ہوئی۔
اس پر لب کشائی کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ستر کی دہائی میں ان کے والد بلوچستان کے گورنر تھے تو کوئٹہ میں کتابوں کی ایک دکان ’’گوشہ ادب ‘‘ کے نام سے موجود تھی۔کئی سال گزرنے کے بعد ایک دن ان کے جی میں آیا کہ گوشہ ادب کا چکر لگایا جایا۔ لشکری رئیسانی جب اس علاقے میں پہنچے تو کتابوں کی دکان ان کی نظروں سے اوجھل تھی اور کہیں نہیں دکھائی دی۔ استفسار کرنے پر انہیں پتا چلا کہ وہ اندرایک گلی میں منتقل ہو چکی ہے۔
دکان پر پہنچنے پر حاجی لشکری رئیسانی نے دیکھا کہ دکان مقفل تھی اور لگتا تھا کہ اسے بند ہوئے عرصہ ہو چکا ہے۔ رئیسانی صاحب کی نظروں نے دیکھا کہ گوشہ ادب کی مقفل دکان کے سامنے اسلحے کی ایک دکان میں مختلف اقسام کا اسلحہ پورے آب و تاب سے چمک رہا تھا۔
اس نظارے نے لشکری رئیسانی کے رگ و پے میں دکھ و تاسف کے جذبات بھر دیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک عزم نے بھی ان کے اندر انگڑائی لی کہ وہ کتاب کلچر کے فروغ کے لیے کام کریں گے۔
حاجی لشکری رئیسانی نے اپنی ذاتی لائبریری میں موجود ہزاروں کتابوں کوتعلیمی اداروں کو عطیہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے حلقہ احباب کو بھی ترغیب دی کہ وہ اس سلسلے میں ان کی مدد کریں۔
حاجی لشکری رئیسانی کی کتاب کلچر کے فروغ کی یہ تحریک مکمل طور پر ضاکارانہ ہے جس میں وہ اور ان کے دوست اپنی مد د آ پ کے تحت کتابیں خرید کر یونیورسٹیوں اور کالجوں کو عطیہ کرتے ہیں۔ حاجی لشکری رئیسانی نے اس نشست میں بتا یا کہ بلوچستان میں کام کرنے والے بڑے نمایاں تعلیمی ادارے جیسے سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کوئٹہ، خضدار یونیورسٹی آف انجینئرنگ، تربت کالج کے ساتھ ساتھ دوسرے اداروں کو وہ اپنے دوستوں کی مدد سے کتابیں فراہم کر چکے ہیں۔
حاجی لشکری رئیسانی جب بلوچستان کے سلگتے مسائل پر گفتگو کر رہے تھے تو اس صوبے کے ساتھ رکھے جانے والے ناروا سلوک پر وہ شکوہ کناں تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے لہجے میں ایک عزم کی کھنک بھی تھی کہ وہ کتاب کے ذریعے بلوچستان کے معاشرے کو علم و آگاہی کے معاشرے سے منور کرنا چاہتے ہیں جہاں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جہالت کے گھٹا ٹو پ اندھیروں کو پنپنے دیا گیا۔
حاجی لشکری رئیسانی کے لبوں سے ادا ہونے والے الفاظ کی باز گشت ابھی سماعتوں میں گونج رہی تھی کہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او)کے عہدیداروں سے ایک نشست میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم طلباء میں کتب بینی اور مطالعے کی عادت پروان چڑھانے کے لیے اپنا کردا ر اد ا کرے۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ کتاب دوستی اور مطالعے کے بغیر سیاست اور سیاسی جدو جہد میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔علم کے ہتھیار سے لیس ہو کر حقیقی معنوں میں سیاسی جدو جہد آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔ حاجی لشکری رئیسانی ایک نواب خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور ڈاکٹر مالک بلوچ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی شخصیت ہیں ۔
دونوں کے سیاسی نظریات میں اختلاف ہونے کی وجہ سے دونوں دو مختلف سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے سیاست میں سرگرم ہیں۔ تاہم دونوں معاشرے میں کتاب کے فروغ کے داعی ہیں۔دونوں معاشرے کی اس عصمت کی حرمت کے لیے یک زبان ہیں۔
حاجی لشکری رئیسانی عملی طور پر اس کے لیے متحرک ہیں اور ایک رضاکارانہ تحریک کے ذریعے کتاب کو معاشرے میں پھیلانے کے مشن پر کاربند ہیں تو دوسری جانب مالک بلوچ کتب بینی کے لیے تلقین و ترغیب دیتے نظر آتے ہیں تاکہ بدی اور شر کی ان قوتوں کو زیر کیا جائے جو بلوچ معاشرے کو جہالت، گمراہی ، تنگ نظری اور تشدد کی کھائیوں میں دھکیلنا چاہتی ہیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ان دو سیاستدانوں کی طرح قومی سطح پر بھی سیاستدانوں کو کتاب سے محبت پرعمل کرنا چاہیے جو خود کتاب سے دور ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی اس سے دور لے جا رہے ہیں اسی لیے تو سیاسی اختلافات کے اظہار میں شائستگی اور اخلاقیات کی بجائے گالی و دشنام کی بھرمار ہے۔
کتاب دوست نواب
وقتِ اشاعت : November 13 – 2018