|

وقتِ اشاعت :   November 14 – 2018

بلوچستان کی پسماندگی کی ایک وجہ معیاری تعلیم کا فقدان بھی ہے جب تک تعلیم کے میدان میں بہتری نہیں آتی اس وقت تک بلوچستان میں خوشحالی کا خواب بھی کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔تعلیم کی بہتری کے لیئے آئے روز نت نئے منصوبوں اور قوانین کے اعلانات کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں،ہر سال تعلیم کے لیئے سالانہ بجٹ میں پیسے بھی مختص کیئے جاتے ہیں ۔

صوبے میں کبھی ،،نئی روشنی ،،پروگرام تو کبھی ،،تعلیمی ایمر جنسی ،،پروگرام شروع کیا جاتا ہے ،اور کبھی ایک این جی او ،،RTSMیعنی ریئل ٹائم سکول منیجمنٹ کو ہائر کیا جاتا ہے کہ شاید ہمارے تعلیمی نظام میں بہتری آئے، مگر ان سب کوششوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا۔

جب تک مردہ جانور کو کنویں سے نکالا نہیں جاتا ،بھلے ہی کنویں سے 40کی بجائے 80ڈول پانی نکالا جائے کنواں پاک نہیں ہو سکتا۔اسی طرح تعلیم کے محکمہ کے اندر کی خرابیوں کو دور نہیں کیا جاتا اس وقت تک محکمہ ٹھیک طریقے سے چل نہیں سکتا۔

سب سے پہلا خرابی یہ کہ محکمہ تعلیم کے انتظامی پوسٹوں پر تعیناتی کا کوئی قاعدہ قانون نہیں ،نہ قابلیت کو دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی تجربہ و سینیارٹی کو ۔انتظامی پوسٹوں پرتعیناتی سفارش اور رشوت کے بل بوتے پر کی جاتی ہے۔

جونیئر لوگوں کی بڑے انتظامی پوسٹوں پر تعیناتی سے ایک تو یہ ہے سینئر آفیسران کی حق تلفی کے ساتھ ساتھ ان کے اندر احساس محرومی بھی پیدا ہوتی ہے،جس کی وجہ سے تعلیم کے میدان میں ان کی خدمات سے صحیح طور پر استفادہ نہیں کیا جا سکتا۔

انتظامی پوسٹوں پر جونیئر آفیسروں کی تعیناتی لاکھوں کے حساب سے پیسے لے کر کی جاتی ہے،اس لیئے جو بھی جونیئر آفیسر بلا میرٹ انتظامی پوسٹ پرآتا ہے تو ان کا مقصد تعلیم کی بہتری سے ہٹ کر پیسہ کمانے پر لگ جاتا ہے،خواہ یہ پیسہ سکولوں کا بجٹ ہڑپ کرنے کی صورت میں ہو یا جعلی بھرتیوں کی صورت میں۔ 

محکمہ تعلیم کا پورا نظام ہی خراب ہے اس پر کوئی چیک اور بیلینس نہیں ۔سب کچھ کاغذوں کی حد تک محدود ہے ۔محکمہ تعلیم کے بجٹ آڈٹ والے بھی کرپٹ ہیں ،جب آڈٹ کرنے آتے ہیں تو وہ پیسے لے کر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ظاہر کرتے ہیں۔آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کے تحت بھرتی ہونے والے ٹیچروں نے تو محکمہ تعلیم میں تباہی مچا رکھی ہے۔

یہ سب بھرتی تو بطور ٹیچر ہوئے ہیں کہ سکولوں میں بچوں کو پڑھائینگے مگر رشوت اورسفارش کے بل بوتے پر انتظامی پوسٹوں براجمان ہوکر کرپشن کے بازار کو گرم کر رکھا ہے۔اب محکمہ تعلیم کے انتظام کو ان جونیئر لوگوں کے حوالے کیا جا رہا ہے جن کو کوئی تجربہ نہیں ہے۔

ان دنوں ہمارے ضلع ڈیرہ بگٹی کے ایک ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر کے پوسٹ پر دو لوگوں کے درمیان مقابلہ جاری ہے ان میں ایک سینئر ٹیچر اور دوسرا آغاز حقوق پیکج کے تحت بھرتی ہونے والا ایک ٹیچر ہے،ایک پیسے دے کر اپنا آرڈر بطور ہیڈماسٹر کراتا ہے تودوسرا جا کر آرڈر کینسل کرا کے اپنا آرڈر کراتا ہے ،یہ آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہے۔

اگر اس طرح کے حالات ہوں تو کیونکر تعلیم میں بہتری آسکتی ہے۔وزیر سے لے ایک چپراسی تک سب کرپٹ ہیں کسی کو ملک و قوم کی خدمت سے غرض نہیں۔جب ہمارے اعلیٰ آفیسران تعلیم کے ساتھ مخلص نہیں تومحض ایک عام استاد کیونکر تعلیم میں بہتری لا سکتا ہے۔